صوبائی حکومت بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچی اساتذہ کی تعنیاتی عمل میں لائے،بلوچی اکیڈمی

83

بلوچی اکیڈمی کے منعقد کردہ 63ویں اجلاس میں اکیڈمی نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے بارے میں قراردادیں منظورکرتے ہوئے گورنر بلوچستان، وزیر اعلیٰ بلوچستان، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلران سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کی طلبہ کے لیے نصاب کی تشکیل میں بلوچی اکیڈمی کو نمائندگی دی جائے تاکہ معیاری نصاب بنانے میں اکیڈمی بلوچستان ٹیکسٹ بُک بورڈ کو علمی مدد و معاونت فراہم کرسکے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان کی ٹیکسٹ بُک بورڈ بلوچ طلبا کے لیے ایسا نصاب مرتب کررہی ہے جو نہ صرف غیر معیاری ہیں بلکہ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی علمی معیار پر پورا نہیں اترتے۔

بلوچی اکیڈمی نے مطالبہ کیا ہے کہ نصاب کی تشکیل میں ایسے قابل دانشوروں اور پڑھے لکھے اساتذہ کو شامل کیا جائے جو بلوچ تاریخ، طرزِ معاشرت ، رسم و رواج اور زبان سے واقفیت رکھتے ہوں۔

قرارداد میں حکومت بلوچستان اور محکمہ تعلیم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے اسکولوں میں دوسرے مضامین کی طرح بلوچی زبان کے اساتذہ کی تعنیاتی عمل میں لائی جائے تاکہ پرائمری سے میٹرک تک بلوچی زبان پڑھایا جاسکے۔

اکیڈمی کی منطورکردہ ایک قرارداد میں اکادمی ادبیات پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ادبیات کی بورڈ آف گورنر میں بلوچستان کی نمائندگی کے لیے بلوچی اکیڈمی سے رائے لینا چاہیے تاکہ بلوچی زبان و ادب کے حقدار ادیبوں اور فنکاروں کی مالی مدد کی جاسکے۔اسی طرح بلوچی زبان و ادب کے متعلق لکھے گئے کُتب کو ایوارڈ دیتے وقت بھی بلوچی اکیڈمی کو اعتماد میں لیا جاناچاہیے۔

بلوچی اکیڈمی نے مطالبہ کیاکہ اکادمی ادبیات کی جانب سے بلوچی اکیڈمی کو دیے گئے سالانہ گرانٹ انتہائی قلیل ہے لہذا اس گرانٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں مدد مل سکے، قرارداد میں بلوچی اکیڈمی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں ایم فل و پی ایچ ڈی کی ریسرچ تھیسز کے لیے طلبہ سے ایسے موضوعات کا انتخاب کرایا جاتاہے جو کہ بلوچی ادب، زبان یا تاریخ کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں لہذا بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ اور تربت یونیورسٹی کے وائس چانسلران متعلقہ ذمہ داران کو ہدایت دیں کہ وہ بلوچی کے اسکالرز کو ایم فل و پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے معیاری اور علمی موضوعات پر ریسرچ پراجیکٹس دیں اور سطحی موضوعات دینے سے گریز کریں۔

اجلاس میں اکیڈمی نے پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ اور ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے نشریات میں بلوچی زبان کے لیے مختص پروگرام کے دورانیہ کو بڑھانے اور پروگرامز کے معیار کو بہتر کرنے کا مطالبہ کیا۔

بلوچی اکیڈمی نے مطالبہ کیا کہ ریڈیو پاکستان ملتان سے بلوچی پروگرام کا دورانیہ بڑھا کر بلوچی زبان سے آشنا اسٹاف تعنیات کیا جائے اور ریڈیو پاکستان سبی سے بلوچی میں باقاعدہ براہ راست پروگرامز شروع کرکے نشریات کے دائرہ کار وسیع کیا جائے۔

بلوچی اکیڈمی نے وفاق ، پنجاب حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ ڈیرہ جات اور کوہ سلیمان کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں خصوصاً غازی خان یونیورسٹی میں بلوچی پڑھائی جائے اور شعبہ بلوچی قائم کیا جائے۔

بلوچی اکیڈمی نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کے اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں بلوچی کلاسز کا اہتمام کیا جائے۔