بلوچستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے 91 فی صد چین اور صرف نو فیصد گوادر کے ترقیاتی ادارے (جی ڈے اے) کو دینے پر بلوچستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے معاہدے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے متعلق کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے سے پہلے کم از کم منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی نائب صدر سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ سینیٹ میں بتائے گئے فارمولے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ سے جتنی بھی آمدنی ہوگی وہ چین کو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے شروع سے ہی ایسے معاہدوں کی مخالفت کی ہے کیوں کہ ان کے بقول یہ استحصالی پروگرام ہے جسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔
سینیٹر جمالدینی نے کہا کہ گوادر کی بین الااقوامی سطح پر کھلی نیلامی کی جائے تاکہ بین الاقوامی سوداگر آکر اچھے سے اچھے ریٹس بلوچستان اور پاکستان کو دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے بقول تمام سیاسی جماعتیں مل کر بلوچستان کی دولت کو لٹنے سے بچاسکیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے مرکزی رہنما اور سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ماضی میں وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے جو بھی معاہدے کیے ہیں ان میں صوبے کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے کی کو شش کی جاتی رہی ہے اور ان کے بقول یہی حال گوادر کی بندرگاہ کا بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین ہمارا دوست ضرور ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے سے اس کے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں بلوچستان سے دولت کا سیلاب گزرنے والا ہے لہذا ان منصوبوں میں بلوچستان اور گوادر کے باسیوں کو اہمیت دینی چاہیے۔
گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لیے 2007ء میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن سنگاپور اتھارٹی مقررہ وقت میں بندرگاہ تعمیر نہیں کر سکی تھی جس پر معاہدہ ختم ہوگیا تھا۔
پھر 2013ء میں گوادر کی بندرگاہ سنگاپور پورٹ اتھارٹی سے کیے جانے والے معاہدے میں کوئی ترمیم کیے بغیر اُنہی شرائط کے تحت چین کی ‘اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی’ کو دے دی گئی تھی۔
معاہدے کے مطابق بندرگاہ 2048ء تک چین کے پاس رہے گی اور اسے تعمیر کرنے والی کمپنی اس عرصے کے دوران پانچ ارب ڈالر گوادر کی ترقی پر خرچ کرے گی۔
وزارتِ منصوبہ بندی کے ترجمان عاصم خان کے مطابق گوادر کی بندرگاہ 2048ء کے بعد تمام اثاثہ جات کے ساتھ گوادر پورٹ اتھارٹی کو منتقل ہو جائے گی جن میں گوادر فری زون اور گوادر بندرگاہ میں جاری اربوں ڈالر کا کاروبار بھی شامل ہوگا۔
وفاقی وزیر برائے پورٹ اور شپنگ میر حاصل بزنجو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بندرگاہ کا 99 فی صد اختیار گوادر ترقیاتی ادارے کے پاس ہوتا، تب بھی بلوچستان کو کچھ نہیں ملتا کیوں کہ ان کے بقول بندرگاہوں کا اختیار وفاق کے پاس ہوتا ہے اور اس کی آمدن بندرگاہ پر ہی خرچ کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر میں بندرگاہ کے باعث جو ترقی اور ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اُس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور صوبائی حکومت کو وہاں محصولات سے ہونے والی آمدنی میں سے حصہ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ‘بی او ٹی’ (Build, Operate and Transfer) کی بنیاد پر ہونے والے معاہدوں کی یہی شرائط ہوتی ہیں اور گوادر بندرگاہ کے معاہدے میں بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔
گوادر بندرگاہ کا افتتاح تقریباً ایک سال قبل اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کیا تھا جس کے بعد سے اس بندرگاہ کے ذریعے مختلف سامان کی درآمد اور برآمد کا سلسلہ جاری ہے