خواب آور گولیوں سے نیند نہیں آتی
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایاز نے لکھا تھا کہ
”ھن دیس سجے کھے سائی آھے
اے دل!تون کھیں کھے تھی دھونداڑی!“
”اس سارے دیس کو یرقان ہے،اے دل تم کسے جھنجھوڑ رہی ہو؟
اس دیس کے لوگ باہر آئیں نہ آئیں۔اس دیس کے لوگ جان پائیں یہ نہ جان پائیں،اس دیس کے لوگ اس درد کو محسوس کر پائیں یہ نہ کر پائیں۔اس دیس کے لوگ درد کو مذاق سمجھیں اور ان شہراؤں سے گزر جائیں جن شہراؤں پر وہ درد اپنا دامن پسارے بیٹھا ہے۔اس دیس کے لوگ اس بیانے پر یقین کریں جو بیانہ ریاست مدینہ کا ہے جس بیانے میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔اس دیس کے لوگ بھلے اس بیانے کو نہ پڑھ پائیں جو بیانہ کسی کاغذ پر درج نہیں پر ان سوکھی اور اداس آنکھوں پر درج ہے جو آنکھیں اب روتی بھی نہیں وہ آنکھیں کیسے رو سکتی ہیں جب ان آنکھوں میں اداسی،مایوسی،فکر یار آکر ٹھہر سی گئی ہے اور کہیں کوئی آب نمکین نہیں!اس دیس کے لوگ بھلے وہ آنکھیں نہ پڑھ پائیں جو آنکھیں رتجگے کے سبب بے نور ہو گئی ہیں جن آنکھوں میں درد کی کوئی ایک دو باتیں نہیں پر دفتر درج ہیں۔
اس دیس کے لوگ بھلے ان آنکھوں میں نہ جھانکیں جن آنکھوں نے اس دیس میں زندہ رہنے کی قیمت رو رو رو رو کر چکائی ہے،میں اس دل کو تو پڑھنے کی بات ہی نہیں کر رہا جس اداس دل کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ ”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“بے سد لوگوں کے ساتھ میں کیا دل کی باتیں کروں؟
میں آنکھوں کی بات کر رہا ہوں جو غم یار میں روئی ہیں
میں بالوں کی بات کر رہا ہوں جو غم یار میں آپس میں اُلجھ گئے ہیں
میں کانوں کی بات کر رہا ہوں جن میں ان کی آوازیں آتی ہیں جو کہیں نہیں
میں ان ہونٹوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنوں کے چومنے کے کا درد لیے ماؤں کے منھ میں کانپ رہے ہیں
آپ جا نتے ہیں چومنا کیا ہوتا ہے؟
اگر آپ نہیں جانتے تو آپ کچھ بھی نہیں جانتے
چومنا!اپنی محبت دوسرے وجود میں داخل کرنے کا نام ہے
وہ مائیں اپنی محبتیں لیے سالوں سے رُل رہی ہے
اب تو ہونٹ بھی کانپ رہے ہیں
اب تو ان ماؤں کا سفر بھی تمام ہونے کو ہے
جس کے لیے جون ایلیا نے کہا تھا کہ
”کیا سفر ہوا تمام؟“
میں پیروں کی بات کر رہا ہوں جو تلاش یار میں چلے ہیں
در بدر ہوئے
گھائل ہوئے
دردوں سے چور چور ہو گئے
اور ان پیروں کو ایک بھی تمر نہ ملا
جو ان پیروں کی شکستہ جوتیاں اُٹھاتا اور ان ماؤں سے کہتا
”اتنی بھاری جوتیاں؟“
اور وہ مائیں جواب میں کہتی
”ان جوتیوں میں تلاش یار بھی تو ہے؟
میں ہاتھوں کی بات کر رہا ہوں نہیں معلوم ان ہاتھوں کی لکیروں میں ایسا کیا تھا کہ مائیں مسافر بن گئیں
وہ مائیں جنہوں نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا
آج وہ شہر بہ شہر
روڈ بہ روڈ
گلی بہ گلی
اور صوبہ بہ صوبہ در بدر ہیں
مجھے نہیں معلوم کہ ان معصوم ماؤں کی ہاتھوں کی لکیروں سے کیا کھل واڑ کیا گیا ہے کہ وہ آپس میں مل گئی ہیں وہ مائیں جنہیں آج اپنے گھروں میں ہونے چاہیے تھا اپنے پوتوں کو اپنے گود میں بٹھا کر کھلنا چاہیے تھا وہ مائیں آج کوئٹہ اور کراچی پریس کلب کے در پر یہ بتانے آئیں ہیں کہ
”ان کی دل درد اور غم سے بوجھل ہیں
ان کی آنکھیں اداس ہیں
ان کی آنکھیں اب اشکوں سے خالی ہو چکی ہیں
ان کی بے نور آنکھوں سے تصویرِ جاناں مٹتی جا رہی ہے
وہ نقوش دھندلا رہے ہیں جو آنکھوں میں قید تھے
دل!یاد جاناں سے پھٹ رہا ہے
اب آنکھیں رتجگے کا جواب دے رہی ہیں
اب پیروں میں سفر کی سکت نہیں
اب سیاہ بال سفید اور سفید بال اُلجھ کر رہ گئے ہیں
ان کی نیندیں ماری گئی ہیں
اب تو بس ایک نام ہی زباں پر رہ گیا ہے
”کیا میرا بیٹا آیا ہے؟کیا میرا بیٹا آئیگا؟
وہ کب آئے گا؟
میں اسے دیکھے بغیر مرنا نہیں چاہتی“
وہ مائیں اپنا درد کسے سنائیں۔ان ماؤں کا درد کون سنے گا؟
وہ درد جو ان ماؤں کی دل اور روح میں سرایت کر گیا ہے،وہ مائیں درد کو لیے جی رہی ہیں
بیٹیاں تو اپنا درد ماؤں کو سناتی ہیں یہ بات مادھو لال حسین نے کہی تھی
”ماں ئی نی میں کنوں آکھا درد وچھوڑے دا حال نی!“
پر مادھو لال حسین نے یہ نہیں بتایا کہ درد کی ماری مائیں اپنا حال کسے سنائیں
درد میں مرتی مائیں
درد میں جیتی مائیں
درد کو لیے چلتی مائیں
وہ مائیں جن کے ماتھے پر درد نے دستک دی اور ریاست نے ان ماؤں کے گلے میں دردوں کے طوق ڈال دیے،وہ درد کے ساتھ جی رہی ہیں پر درد بھی تو جان پائیں کہ
وہ مائیں ہیں
کوئی سنگ میل تو نہیں جس کے ماتھے پر لکھا ہو
”کوئٹہ 90 کلو میٹر!“
پر اس ریاست نے ان ماؤں کے دلوں پر درد لکھ دیا
اور پیروں کو مسافر بنا دیا
اور سفر بھی ایسا کہ تمام ہی نہیں ہوتا
اور منزل بھی ایسی کہ قریب ہی نہیں آتی
وہ مائیں جو دروازے کے ہلکے اشارے پر اُٹھ کر بیٹھ جا تی ہیں اور اندھیرے میں چیخنے لگتی ہیں کہ
”کیا میرا بیٹا آیا ہے؟کیا ذاکر جان آیا ہے
ارے بتاؤ“
اور کوئی آکر ان ماؤں کو خواب آور گولیاں دے جاتا ہے
پر کم بخت نیند ایسی ہے کہ جب دردوں کا بسیرہ ہو تو خواب آور گولیوں سے بھی نیند نہیں آتی
اس دیس کے لوگ ریاست کا بیانہ تو جان گئے پر ان ماؤں کا بیانہ جاننے کی ذہمت ہی نہیں کرتے جو اب درد سے پاگل ہو رہی ہیں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اس بسترے پر جا تی ہیں جس بسترے پر کبھی ان کا لال سویا کرتا تھا اور اپنی محبت بھری زباں میں کہتی ہیں
”بول میرے پیچھے آئے گا تجھے چین سے سونا؟!“
بستر خالی ہوتا ہے اور کوئی جواب نہیں ملتا
سچ میں اس دیس کو یرقان ہے
کالا یرقان
پیلا یرقان
دردوں سے آری یرقان
جس یرقان نے محبت کے رسولوں جیسی ماؤں کو درد سے بھر دیا ہے
نا تمام۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں