سعودی عرب میں اگلے برس سے سینما گھروں کو کھولنے کی اجازت دیا جانا حالیہ عرصے میں کیے جانے والے اعلانات میں سے ایک بہت بڑا اور غیر معمولی اعلان ہے۔ انتظامی امور میں تبدیلیاں تو پچھلی چار دہائیوں میں بھی دیکھی جاتی رہی ہیں لیکن خواتین کے حقوق اور خاص طور پر عوام کو قانونی طور پر تفریح کا موقع دیا جانا ایک غیر معمولی اقدام تصور کیا جا رہا ہے۔
پیر کو حکومت نے ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ اگلے برس مارچ میں ملک میں پہلا سینما گھر کھول دیا جائے گا اور سنہ 2030 تک ملک بھر میں 300 سے زائد سینما ہاؤسز اور 2000 سے زائد سکرینز ہوں گی۔
مسلم دنیا کے لیے مقدس ملک سعودی عرب میں قانونی طور پر کوئی سینما گھر موجود نہیں۔ مگر ایسا نہیں کہ وہاں کبھی سرے سے سینما گھر موجود ہی نہیں تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہاں کبھی فلم نہیں بنی اور نہ ہی ایسا ہے کہ وہاں اس شعبے سے کوئی منسلک نہیں۔
سنہ 1980 سے قبل وہاں سینما گھر موجود تھے لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور سینما گھروں کو بند کر کے ممنوع قرار دے دیا گیا۔
گذشتہ 26 برس سے سعودی فلم اور ٹی وی سے وابستہ اداکارہ شیریں باوزیر کہتی ہیں کہ جب آج میں نے یہ خبر سنی تو مجھے یقین نہیں آیا اور تصدیق کے لیے میں نے اپنی دوست سے رابطہ کیا۔
‘مجھے یاد ہے کہ ستر کی دہائی تک یہاں سینما موجود تھا لیکن وہ صرف مردوں کے لیے تھا۔ لیکن محلے کی سطح پر کسی ایک گھر میں بڑی سکرین کا اہتمام کیا جاتا تھا اور پھر ہم بھی فلم دیکھ سکتے تھے۔ مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے ڈی وی ڈی کی بجائے اب ہم ٹی وی پر مختلف فلمیں دیکھ سکتے ہیں اور انٹرنیٹ تک بھی رسائی ہے۔’
لیکن تفریح اور معلومات کے لیے فلم اور ڈاکیومینٹری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکا۔
سنہ 2006 میں سعودی عرب کی پہلی فیچر فلم کیف الہال( تم کیسے ہو؟) منظر عام پر آئی۔ یہ فلم پرنس الولید بن طلال کی کمپنی کی معاونت سے بنی لیکن اسے ملک میں فلمایا نہیں جا سکا۔
یہ وہ موقع تھا جب سعودی شہزادے نے کہا کہ مجھے ریسرچ میں ایسا کچھ نہیں ملا جس میں مذہب اسلام فلم کو ممنوع قرار دیتا ہو۔
اسی برس بننے والی ایک ڈاکیومنٹری فلم سینما 500 کلومیٹر کے بعد بھی ملک میں سینما گھروں پر عائد بندش پر اعتراض کیا گیا۔
اس کہانی میں ایک نوجوان بڑی سکرین پر فلم دیکھنے کی خواہش میں طویل سفر طے کر کے ہمسایہ ملک بحرین جاتا ہے۔ اور پھر یہیں سے سعودی عرب میں سینما کی اجازت دیے جانے پر بحث زیادہ زوروشور سے چلی۔ اسی عرصے میں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ شاید جلد ہی سینما گھروں سے پابندی ختم ہو جائے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا اور یوں دس برس مزید گزر گئے۔
سعودی میڈیا اور فلم انڈسٹری سے وابستہ سمیرہ عزیز کہتی ہیں کہ سینما ثقافتی تبادلے کا اہم ذریعہ ہیں، اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے ترقی کرنی ہے تو جلدی کرنا ہوگی۔
سمیرہ کو بالی وڈ کی پہلی سعودی فلم ڈائریکٹر کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سعودی شہریوں میں بھی سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے بہت انقلاب لایا ہے اور لوگوں میں آگاہی آئی ہے مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
‘ایک وقت تھا جب میں جدہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی تھی۔اور جب ہم شوٹنگ کر رہے ہوتے تھے تو لوگ حرام حرام کہہ کر گزرتے تھے۔’
وہ کہتی ہیں کہ اس سفر میں اپنا گھر بنائے رکھنا لوگوں کو سمجھانا اتنا آسان نہیں تھا۔ دوسرے فلم اور ڈرامے کی کاسٹ کے لیے بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں لیکن ایسا نہیں کہ لوگوں کو شوق نہیں۔
سمیرہ نے بتایا کہ ‘پچھلے دو سال سے سعودی کلچر ایسوسی ایشن میں ایک چھوٹی سکرین موجود ہے جہاں شوز وغیرہ ہوتے ہیں ساؤتھ ایشن فیسٹول بھی ہوتا ہے جہاں قونصلیٹ کے احاطے میں فلمیں دکھائی جاتی ہیں لیکن عام آدمی کی اس تک رسائی نہیں ہوتی۔’
سعودی عرب کی پہلی فلم ڈائریکٹر ھیفاء المنصور کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے لیے آج ایک خوبصورت دن ہے۔ میں بہت خوش ہوں یہ بہت حیران کن ہے۔ سعودی فلموں کو اب اپنے گھر واپسی کے لیے جگہ مل گئی ہے۔’
ھیفاء جنھوں نے سنہ 2000 کے اوائل میں شارٹ فلموں سے اپنے کرئیر کا آغاز کیا اور وہاں خواتین کے لیے پردے کی پابندی اور دیگر سماجی رویوں اور مسائل کو سامنے لایا کہتی ہیں کہ اس سفر کی ابتدا میں مجھے بہت مصائب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی سعودی ڈائریکٹر ہیں جن کی فلم ‘وجدہ’ کو آسکر ایوارڈ میں بہترین غیر ملکی فلم کے لیے نامزد کیا گیا۔
ھیفاء اور سمیرہ پر امید ہیں کہ اب حکومت کی جانب سے قانونی طور پر سینما گھروں سے بندش اٹھائے جانے کے بعد پہلے سے موجود مشکلات کم ہو جائیں گی۔
فلم انڈسٹری سے وابستہ شخصیات کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ حکومت نے اس فیصلے میں علما سے بات ہی نہ کی ہو لیکن بہت سوں کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اس خبر پر مذہبی طور پر سخت نظریات کے حامل گروہوں کی جانب سے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کرنے والے ہمیں روک نہیں سکتے جنھیں پسند نہیں وہ مت دیکھیں کیونکہ اب یہ قانونی طور پر جائز ہے جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ بات چیت سے آنے والے عرصے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔