کوہ سلیمان ریاستی جبر کا شکار
تحریر: ماہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں ایک بلوچ طالب علم جو کہ کوہ سلیمان سے تعلق رکھتی ہوں۔میرا تعلق کوہ سلیمان کے ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی کینسر سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے میرے علاقےسے یورینیم نکلتا ہے اور یہی یورینیم میرے ہی لوگوں کا دشمن بن گیا ہے کوہ سلیمان کی یورینیم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اسی کی وجہ سے آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ملک بن گیا ہے مگر افسوس یہی یورینیم بلوچ قوم اور کوہ سلیمان کے عوام کو متاثر کر رہا ہے۔ہر آئے روز کینسر کی وجہ سے میرے علاقے میں کسی نہ کسی کی جان جا رہی ہے ۔ اور اس کا ذمہ دار صرف ریاست ہے ۔اگر ریاست کو ہمارے علاقے سے یورینیم نکالنا ہے تو ہمیں سہولیات بھی دینے ہونگے ۔
یہاں میں چند واقعات بیان کر رہی ہوں جو حقیقت ہیں : کینسر نے تو اسی دن سے ہی ہمارے کوہ سلیمان کو گھیر لیا ہے جس دن سے ریاست نے یورنیم نکالنا شروع کیا ہے۔اور میں یہی واقعات کو بیان کرنا چاہوں گی کبھی جو میں نے دیکھے ہیں اور جو مجھے یاد ہیں۔
1: کوہ سلیمان کے علاقے لنڈ لوپ سے تعلق رکھنے والا ایک بلوچ طالب علم صدام بلوچ جو کہ 18 سال کا تھا کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا ۔اور یہ ایک قدرتی موت نہیں ہے ریاست کا چال ہے ۔ ریاست شروع سے ہی بلوچ نسل کشی کر رہی ہے، چاہے وہ جس طریقے سے ہو ۔ صدام بلوچ اپنے قبیلے میں ایک پڑھا لکھا اور باشعور طالب علم تھا ۔اور وہ اپنے ماں باپ کا لاڈلا بیٹا تھا لیکن افسوس کینسر نے ان سے ان کا جوان بیٹا چھین لیا ۔
اسی طرح اور کئی واقعات ہیں کینسر کی وجہ سے اور کئی گھر ٹوٹ چکے ہیں کہیں کوئی جوان مرد کہیں کوئی عورت اور کہیں کوئی بچہ اس مرض کا شکار ہو رہا ہے۔اور اس یورینیم کے کیمیکلز کہ وجہ سے بہت سے بچے معذور اور بیمار پیدا ہو رہے ہیں جو زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں ہیں۔
ہم جن معدنیات کے وارث ہیں وہ پاکستان کو ترقی دے رہی ہیں اور ہمیں صرف ختم کر رہی ہیں ہیں۔ اورجن معدنیات کے مالک بلوچ قوم ہے وہ آج اس معدنیات پر مزدور ہو کر کام کر رہے ہیں ۔اور جس کی تنخواہ صرف پانچ ہزار بارہ ہزار اور 15 ہزار تک ہے ۔
مگر پنجاب کے رہنے والے لوگ ہمارے یورینیم اور علاقے پر قبضہ کر رہے ہیں خود افسر بن کر ہمیں مزدوری کروا رہے ہیں اور ہمیں شعور کی طرف سے روک رہے ہیں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو مزدوری پر لگا رہے ہیں تاکہ وہ آگے نہ پڑھ سکیں۔اور شعور کی طرف نہ جا سکیں۔کیوں کہ ریاست جانتی ہے اگر یہ لوگ شعور کی طرف جائیں گے تو ہمارے لئے لیے ان کے ذہنوں پر اور ان کے معدنیات پر قبضہ کرنا اور استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا کیوں کہ جن میں شعور ہوتا ہے وہ اپنے حقوق کو جانتے ہیں اور مزاحمت کرنا جانتے ہیں۔اس لیے ریاست ہمیں تعلیم سے دور رکھنے کی سازشوں میں لگی ہوئی ہے ۔
ننگر نائی فورٹ منرو پروجیکٹ 1980 میں شروع کیا گیا یہاں سے بھی یورینیم نکالا جا رہا ہے اور یہاں بھی بلوچ آج تک ڈرائیور مزدور اور چپڑاسی کا کام کررہے ہیں جبکہ بڑے افسر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ریاست کئی طرح سے سے بلوچ نسل کشی کررہی ہے. ان پروجیکٹس کی بدولت ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور خاص کرکوہ سلیمان کے علاقے موذی مرضوں کی بہتات ہیں۔جس میں معزور بچوں کی پیدائش کینسر آنکھوں کی بیماریاں خاص کر عام ہیں ۔۔۔اور یورینیم سے نکلنے والی کیمیکل کی وجہ سے علاقے کی جانوروں کو بھی متاثر کررہی ہے۔۔۔پچھلی سال سُہر کوہ سے یورینیم نکالی گئی جس کے اثرات آس پاس کے تمام علاقوں پر پڑی۔
اگر ریاست آج کوہ سلیمان کو سہولیات دینے کا بندوست کررہی ہے تو وہ صرف اپنے فائدے اور اپنی مقصد کے لیے کررہی ہے تاکہ وہ آسانی سے کوہ سلیمان پر قبضہ کر لی اور وہاں کے لوگوں کو یہ یقین دلائیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔یہ سہولیات ان کے فائدے کے لیے ہیں۔مگر افسوس کوہ سلیمان کے سادہ مزاج عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ سچ میں ریاست ہمارے لیے ہمدرد ہے۔
مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھتے، یہ ہمدردی یہ سہولیات یہ نئے سہولیات صرف ہمارے نسل کشی اور لوٹ مار کے لیے ہیں۔ اگر ریاست کو ہم سے سچ میں ہمدردی تھی تو اس وقت یہ سہولیات ہمیں کیوں نہیں دی جب ہمیں بے حد ضرورت تھی ان کی۔
جب کوہ سلیمان کی عورتیں پانی کی تلاش میں در بدر ہو رہی تھیں ہمارے مائیں بہنیں رات کو دو تین بجے اپنے گھروں سے نکل کر دور پانی بھرنے جاتیں اور آج بھی اس حال میں گزارا کر رہے ہیں۔جب وہ رات کو پانی بھرنے جاتے ہیں تو ان کو زہریلے جانور کاٹتے، وہ پہاڑوں سے گرتے اور آج بھی کوہ سلیمان میں ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ اسی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
ایسے کئی واقعات ہیں جب عورتیں ڈلیوری کیس میں اپنی جان کی بازی ہار جاتی۔ اگر کوئی شدید بیمار ہوتا تو اسکو چار پائیوں پر اٹھا کر شہر کا رخ کرتے ۔ یا تو ان کی راستے میں انتقال ہو جاتی یا ہسپتال میں پہنچ کر۔
جب ہم ایسی زندگی گزار رہے تھے تو تب کہاں تھی تمہاری ہمدردی تب تمہاری سہولیات کہاں تھیں۔ میری ماں مجھے بچپن میں ایک سچی کہانی سنایا کرتی تھی جو کہ ہمارے علاقے میں سے ہی کسی کی تھی۔۔
ایک حاملہ عورت اپنے گھر سے دور پانی بھرنے گئی تب اس کے ساتھ کوئی نہیں۔ اس نے چشمے سے اپنی مشک بھری اور پتھر پر رکھ کر اٹھانے لگی تو اس کی پیر پھسل گئی اور وہ پانی میں گر گئی۔ وہ اپنے اور بچے کی جان بچانے کے لیے آواز دیتی رہی لیکن آس پاس کوئی نہ تھا اور وہ اپنے بچے سمیت انتقال کر گئی۔
آج ریاست سڑکیں اور سہولیات دے رہی ہے تو صرف اپنے فائدے کے لیے اور ہم یہ جانتے ہیں، اور یہی حقیقت ہے ریاست کو نہ پہلے بلوچ قوم سے ہمدردی تھی اور نہ ہی آج ہے۔
جس طرح امریکہ نے ریڈ انڈین نسل ختم کردی اسی طرح آج پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی کرنا چاہ رہی ہے اور یہ اب ہم پر ہے کہ ہم آواز اٹھا کر اپنی نسل کشی روکیں یا پھر چپ رہ کر اپنی نسل کو ختم ہوتے دیکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں