پاکستان میں افغانستان کے سفیر کی بیٹی کے اغواء اور بعد ازاں تشدد پہ افغان حکومت سمیت افغان طالبان کے رہنماء کا سخت رد عمل دینے کا سلسلہ جاری ہے ۔
افغان طالبان کے سیاسی رہنماء اور طالبان دور حکومت میں پاکستان میں سفیر رہنے والے ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب ( پاکستان ) میں افغان سفیر کی بیٹی کی اغواء اور تشدد تمام افغانوں کی عزت کا سوال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس لئے لازمی ہے کہ اس معاملے کی سخت مذمت کی جائے اور پنجاب سے اس معاملے پہ پوچھ گچھ کی جائے۔
ملا عبدالسلام ضعیف طالبان کے دور حکومت میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں جبکہ اس وقت افغان طالبان کے سیاسی رہنماء ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ طالبان رہنماء نے اپنے بیان میں پاکستان کے بجائے پنجاب کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ملا عبدالسلام کو پاکستانی حکام نے افغانستان پہ امریکی حملے کے بعد اسلام آباد واقع افغانستان کے سفارت خانے سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا تھا اور وہ کئی سالوں تک گوانتاموبے میں جیل بھی ہوا ہے ان تمام واقعات پہ ملا عبدالسلام نے ایک کتاب بھی لکھا ہے۔
ملا عبدالسلام اپنے کتاب میں یہ بھی ذکر چکے ہیں پاکستانی حکام نے اس کا کس قدر تذلیل کیا تھا۔
افغان امور کے ماہر یہ بھی کہتے مذکورہ رہنماء کا شمار طالبان کے صفحوں میں پاکستان کے ناقدین میں شمار ہوتا ہے۔
دوسری جانب میں کابل میں افغانستان کے وزارت خارجہ نے پاکستان کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرکے پاکستانی حکام پہ زور دیا کہ وہ ملزمان کی شناخت اور گرفتاری کو یقینی بنائیں۔
دریں اثنا اس واقعہ کے خلاف کابل میں عوام کی جانب سے پاکستانی سفارتخانے کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا ۔
اسلام آباد میں افغان سفیرکی بیٹی کےاغواء اور تشدد کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مقدمہ تھانہ کوہسارمیں افغان سفیرکی بیٹی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں اغواء اورتشدد کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ابتدائی بیان میں لڑکی نے بتایا کہ گھر سے کچھ دور ٹیکسی میں شاپنگ کیلئے گئی تھی۔ واپسی کیلئے دوسری ٹیکسی میں سوار ہوئی جوکچھ دیر بعد راستے میں روک دی گئی۔
اچانک ایک شخص آیا اور ٹیکسی میں سوار ہوکر مجھ پرتشدد کرنے لگا۔ تشدد کے باعث میں بے ہوش ہوگئی ، آنکھ کھلی توپارک میں گندگی کے ڈھیر پر تھی۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ 16 جولائی کو اسلام آباد میں پیش آیا تھا جس کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے افغان سفیر کی بیٹی کے اغواء کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِ داخلہ شیخ رشید کو ہدایت کی تھی کہ ملزمان کو 48 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے گذشتہ روز جاری کیئے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغواء اور تشدد کا معاملہ ناقابلِ برداشت ہے، سفارت کاروں اور ان کے اہلِ خانہ کی سیکیورٹی کیلئے پُرعزم ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے بتایا ہے کہ افغان سفارت خانے نے اطلاع دی تھی کہ افغان سفیرکی بیٹی پر کار میں سوار ہوتے وقت حملہ کیا گیا۔
پولیس کے مطابق پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر کی بیٹی پر تشدد کے کیس میں دوسرے ٹیکسی ڈرائیور کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔واقعے میں ملوث ایک ٹیکسی ڈرائیور پہلے ہی زیرِ حراست ہے، جبکہ تیسرے ڈرائیور کی تلاش جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق واقعے میں 2 ٹیکسیاں استعمال کی گئی تھیں، اور اب تک 2 ٹیکسی ڈرائیور گرفتار کر لیئے گئے ہیں۔
افغان سفیر نجیب اللّٰه علی خیل نے سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کسی اور خاتون کی تصویر غلط طور پر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جسے وہ جانتے تک نہیں۔