شہید گلداد اور شہید علی شیر بگٹی
تحریر: میرجان میرو
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں دو عظیم شہیدوں کے بارے کچھ الفاظ لکھ رہا ہوں جو کہ اپنے مادر وطن کے لئےآخری دم تک لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ میری کوشش یہی ہے کہ میں ان عظیم بہادروں کی داستان بلوچ قوم کے سامنے بیان کرسکوں جو اپنے آخری گولی تک دشمن کے خلاف دو بدو لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ لیکن ہمارے دانشور اور لکھاری حضرات ہزاروں قصے و کہانیاں لکھتے ہیں مگر ان شہیدوں کے بارے میں ان کے قلم کی سیاہی سوکھ جاتی ہے اور وہ دشمن سے خوفزدہ ہو کر دو الفاظ تک لکھنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے موت سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے بہادر فرزندوں کی ایسی ہزاروں کہانیاں اور داستانیں موجود ہیں کہ جو لکھاری کے منتظر ہیں کہ انہیں لفظوں کی لڑیوں میں پرو کر پڑھنے والوں تک پہنچائیں لیکن حالت یہ ہے کہ بلوچ قوم اپنے شہیدوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی کیونکہ ہمارے لکھاری ابھی تک عشق و معاشقوں کی تعریفوں میں مگن ہیں۔ تاریخ بے رحم ہے اور وہ کبھی بھی ان لوگوں کو معاف نہیں کریگی۔
شہید گلداد عرف جنید ایک نوجوان لڑکا تھا ، جب میں پہلی دفعہ اپنے کیمپ آرہا تھا تو راستے میں ایک دوست نے کہا کہ آگے ( BLT ) کے دوستوں کا کیمپ ہے ۔ میں بہت بھوکا اور پیاسہ تھا کیوں کہ یہ میرا پہلا دن تھا میں شہر سے پہاڑوں کی طرف جارہا تھا، دوستوں نے مشورہ کیا کہ ( BLT ) کے کیمپ میں جاکر وہاں دوستوں سے حال حوال کرینگے اور کچھ کھانے کو ملا تو آگے ہمارا سفر آسانی سے گذر جائے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جب ہم وہاں پہنچے تو دوستوں نے ہم کو دیکھا تو انتہائی خوشی سے ہم دوستوں کا استقبال کیا۔
وہاں ہم شہید علی شیر اور شہید گلداد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ دونوں بہت خوش مزاج انسان تھے، ان دونوں دوستوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیونکہ وہ ہر وقت غلامی سے چھٹکارے کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ شہید علی شیر کہتے کہ یہ جنگ ہماری آخری جنگ ہے ہم خوش نصیب ہیں جو کہ اپنے مادر وطن کے لئے لڑرہے ہیں۔
اس دن ہم سب نے مل کر کھانا کھایا لیکن میں گلداد کو بار بار دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ یہ چھوٹا سا لڑکا کیسے سرمچار بنا۔ یہ کیسے بھوک و پیاس برداشت کریگا، وہ کیسے قلات کی شدید سردی اور برف باری کو برداشت کرپائے گا۔ میں بار بار گلداد کو دیکھ کر یہی سوچ رہا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں ، نہیں نہیں میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا تھا پر یہ حقیقت تھی کہ ایک 16 سالہ لڑکے کو جو اپنے سرزمیں کے لیے پاگل تھا وہ وطن کا ایک سرمچار تھا، وہ ایک گوریلہ سپاہی تھا اس نے اپنی زندگی میں نہ کوئی اسکول دیکھا اور نہ ہی کوئی شہر اور بازار اور نہ کوئی آزادی پسند سیاسی تنظیم کا ممبر تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایک بہادر جنگجو تھا ۔
مجھے ایک دوست نے بتایا جب گلداد چھوٹا تھا تو ہر ٹائم کیمپ میں آیا کرتا تھا اس کے فیملی والے جب بھی اس کو لےجاتے تو وہ واپس کیمپ میں آتا تھا ۔شہید علی شیر بھی ایک عظیم جنگجھو تھا وہ ایک بہادر گوریلہ تھا وہ ہر ٹائم جنگی حکمت عملیوں کی باتیں کرتے تھے وہ ہر وقت صرف ایک ہی بات کی ورد کرتے کہ مجھے قلات کی وادی بہت پسند ہے ۔ مجھے اس سرزمیں سے عشق ہے اس سرزمیں پر ہزاروں شہیدوں کا خون بہا ہے مجھے یہ سرزمیں بہت عزیز ہے۔ میری ایک خواہش ہے کہ میں اپنے سرزمیں میں شہید ہونا چاہتا ہوں مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں کہ میرے لاش کو میرے دشمن جلا ڈالیں ۔
ایک دفعہ ہم دوران گشت تھے کہ اچانک گولیوں کی آواز آئی اور اس کے بعد تین ہیلی کوپٹر آئے اور تقریباً 5 گھنٹے کی خونریز جنگ لڑی گئی اس جنگ میں دشمن کے کاسک چٹ مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے قریب 50 آدمی تھے اور فوج کے 20 گاڑی اور کئی موٹر سائیکل اس آپریشن میں حصہ لے رہے تھے شہید گلداد اور علی شیر نے دشمن کا بہاردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو نکال کر خود بہادری سے جامِ شہادت نوش کی ، دشمن نے کیمپ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا تھا۔ دشمن فوج اور اس کے کاسگ چٹ مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے ملکر حملہ کردیا ۔ اس معرکے میں دشمن کو بہت جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا صبح 7 بجے جھڑپیں شروع ہوئیں جو دن کے 3 بجے تک ختم ہوئیں۔ اس معرکے میں ریاست کے مقامی کاسک چٹ ڈیتھ اسکواڈ اور فوج کے کئی آدمی جہنم رسید ہوگئے اور اس کے بعد دشمن نے شہیدوں کے لاشوں کو گاڑی سے باندھ کر گسیٹتے ہوئے غیر انسانی حرکت کرکے ہمارے شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ۔
ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ شہیدوں کے لاشوں کو کہاں دفنایا گیا اور کس حال میں ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا، جب بھی دشمن کو بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے تو اپنے شکست کا بدلا عام آبادیوں پر بمباری، بے گناہ لوگوں کو اغواہ کرنے اور ہمارے شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرکے لاشوں کو جلانا یا ان پر تیزاب پھینکنے کی شکل میں لیتا ہے ۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ظالم جتنا بھی ظلم کرلے، شکست اس کا مقدر ہے اور شہید کبھی بھی نہیں مرتے وہ ہر وقت ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
آج شہید گلداد اور شہید علی شیر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں وہ ہنستے ہنستے اپنے مادر وطن کے لئے شہید ہوگئے ہیں وہ خوش نصیب تھے کہ شہادت کے عظیم رتبے سے سرشار ہوگئے ان شہیدوں کی قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی اور بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہوگا یہ ہمارا ایمان ہے کہ جیت ہماری ہوگی اور ناکامی دشمن کی ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں