مظلوم فلسطینی بھائیوں کے نام ایک کھلا خط – قندیل بلوچ

392

مظلوم فلسطینی بھائیوں کے نام ایک کھلا خط

تحریر: قندیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میرے قبلہ اوّل کے مسلمان بھائیو میں خیر وخیریت سے ہوں۔ اُمید کرتا ہوں آپ لوگ بھی خیریت سے ہونگے ۔

میرے قبلہ اوّل کے مسلمان بھائیو ، میرے دُکھ ، درد اور غم کو محسوس کرنے والوں جیسے آپ لوگ جانتے ہیں۔ ہمارا اور تمھارا رشتہ ایک عظیم رشتہ ہے ۔

ہمارے اور تمھارے کلمہ ،قبلہ ،دین ،ایمان ایک ہے اسی طرح ہمارے اور تمھارے اوپر ہونے والے ظلم کا بھی تھوڑا بہت فرق ہوگا زیادہ نہیں ۔

ہاں بس اتنا ہی شاید تمھارا دشمن ایک یَہودی اور ہمارا نام نہاد منہ بولے مسلمان ۔

میرے مسلمان بھائیو میں جانتا ہوں آپ اس وقت کس طرح کے ظلم کے شکار ہیں ۔ ظالم کی طرف سے کس کس طرح کے ظلم کو سہہ رہے ہیں ۔

میرے مظلوم بھائیو! میرے کلمہ ،کتاب ،دین کے شریکو ،میرے دل پر دُکھ کے بوجھ کو محسوس کرنے والو مجھے پتہ ہے آپ اپنے اوپر کے ظلم سہتے ہوئے اتنے دور سے ہمیں ہی اور ہماری قوم کو ہی پکارتے ہو کیونکہ ان سے آپ کے ایک عظیم رشتہ جڑا ہوا ہے ۔ آپ ہمیں اور ہماری قوم کو اپنا وارث سمجھتے ہو جس طرح ہم تمھیں اپنا وارث سمجھتے ہیں۔

میرے دوستو میرے ہمدردو ،مظلوم بھائیوں جس طرح تم پر تسلسل کے ساتھ ایک ظلم جاری ہے اسی طرح ہم پر بھی ایک اسی طرح کے ایک قابض نے اپنی ظلم کوجاری رکھا ہوا ہے ۔

وہ بھی ایک ایسی چالاک ،مکار ، انا پرست حرص کرنے والے اور بزدل دوسری بات یہ بھی۔اسکی ہوشیاری اور مکاری عجیب سی ہے۔ جب ہم اس پر اپنے سرزمین کے قبضہ کرنے پر خلاف مزاہمت کرتے وقت مارتے ہیں تو ہاتھ اوپر کرکے کہتا ہے۔ مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کوکیسے شہید کر سکتا ہے ۔جب ہمیں مارتا ہے تو ہماری لاشوں کو مسخ کرکے گاڑی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹتا ہے ۔ہم بلوچ بطور مسلمان تو کہتے ہیں دشمن کو مارو اور اسکی لاش کو عزت سے دفناؤ یاکہ دفنانے دو۔

ہماری دشمن ہماری بھائیوں کے لاش سے خوف محسوس کرتا ہے تو وہ اسکی دل کی کمزوری ہے، بزدلی ادھر ہماری کیا قصور ؟ ہمارے پیاروں کی لاشیں کو کھجور کے درخت پر لٹکاکر اسے تشدد کرکےپھینک دیتا ہے۔

میرے مظلموم بھائیو ہم نے اپنے دشمن سے ہر قسم کے درد دیکھے ۔ یاد نہیں کونسی درد دُکھ تکلیف رہ گیا ہے ہمیں اس دشمن سے نہ ملا ہو ۔

مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیو یہ مظالم شاید آپ لوگ نہیں دیکھے ہونگے ۔جو ہم جی اور سہہ رہے ہیں ۔

ہماری ماؤں کےلال انکے اپنے آنکھوں کے سامنے گھسیٹ کر دشمن اپنے گاڑی میں ڈال کر اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے سالوں سالوں خفیہ جیلوں میں بند کر دیتا ہے ۔انکے بوڑھی مائیں رو رو کر اپنی آنکھوں کی بینائی کھو بیھٹتی ہیں۔

ہماری قوم کے جوان عورتوں کے سامنے انکی جوان مرد کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ وہ مظلوم بلوچ عورت کی جوانی پڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہے اسے پتہ ہی نہیں چلتی میرے شوہر زندہ ہے یا شہید ہو چکا ہے ۔

مظلوم فلسطینی بھائیوں کیا آپ کی مائیں ایسی درد دُکھ سہہ چکے ہیں ۔ دس دس سال ملک کے کونے کونے کے شاھراہوں پریس کلبوں پر سردی، گرمی۔ بارش ،دھوپ میں بیٹھ کر اپنی پیاروں کی بازیانی کے لئے ڈھنڈورا پھیٹتے ہو انکے پیاروں پر پٹی باندھ کر انہیں جیل میں سزا دینے والے سالوں میں ایک دن انگشت بہ دندان نہیں ہوتا اسکے کوئی ماں بھاپ بہین بھائی بیوی یا بیٹےبیٹیاں ہوگئی اسے۔میں نے یہاں میں نے سالوں سال بند کیا ہے ؟

قبلہ اوّل کے مسلمان بھائیو بلوچ کے ہمدردو کیا آپ لوگوں پر ایسی ایسی ظلم کی ثبوت ملے گی؟ والدین کے وہ بیٹے جو اپنی حیات یعنی ٖ”زندگی” سمجھ کر ۔ اسے پڑھا لکھا رہے ہو تاکہ وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بن کر ہمیں تاحیات تک تکلیف اور مشکلات سے دور کرے ایسی آخری اُمید کو گھسیٹ کر روڈ کے کنارے انکے آنکھوں پر انکے اپنی مظلوم ماں کی چادر سے باندھیں جس سے وہ اس گرمی سے چھوٹنے والے پسینے کو صاف کرتی ہو وہ حیات کی تاحیات زندہ رکھنے کے لئے چھوٹتی ہوئی پسینہ ہو ؟

میرے دکھ ،درد غم کو محسوس کرنے والے بھائیو تمھارے دیس میں ایسی ظلم کی داستان ہے کہ آٹھ دس سالہ کا بچہ کھیتوں میں جانے سے کسی فوجی کا حوس کا نشانہ بنتا ہو ؟

میرے مسلمان بھائی ہمیں پتہ ہے ہمارے اور تمہارے دشمن الگ الگ ہیں ہم پر ظلم بھی طرح طرح کے ہوتے رہے ہیں ۔ ہاں مجھے اتنا پتہ ہے جو ظلم تم پر ہوا ہے وہ ہم پربھی گزرا ہے لیکن جو ہم پر ہوتے رہے ہیں ۔شاید آپ لوگوں نے ایسی ظلم ابھی رک نہیں دیکھے ہو۔

قبلہ اوّل کے مسلمان بھائیو شاہد تم پر ایسی ظلم کی انتہا نہ گزری ہو ۔جہاں ہماری مائیں امیر بلوچستان کےمالک ہوتے ہوئے غریب ہیں انکی عزتیں یہی لکڑی سے بنائے جھونپڑی میں روز قبر کا نظارا پیش کرتی ہو۔

ہماری دیس کی مائیں شام کا کھانا پکا کر صبح تک اس بے چینی سے نہیں سوتے کہیں رات میں دشمن کی فوجی چھاپہ نہ مار کر میرے لال کو مجھ سے جدا نہ کردے ۔

میرے دیس کے مائیں ان فوجیوں کی حوس کا نشانہ بن رہے ہیں وہ اپنے آپکو مسلمان سمجھتے اور کہتے ہیں اور اپنے آپ کو ہماری محافظ کے لقب سے نوازتے ہیں۔

قبلہ اوّل کے مسلمانو ظلم ،دکھ ،درد ،تکلیف چاہے جس طرح کے ہو سہتے وقت ہمیں اپنے خون ،کلمہ ،دین کا رشتہ اور شریک سمجھ کر پکارتے وقت یہ یاد رکھو یہی ہم پر بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں