کیا یہ سچ ہے
تحریر : شئے رحمت
(حصہ اؤل)
دی بلوچستان پوسٹ
میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا ، نہ ہی آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں ، نہ ہی آپ کا حال احوال مجھے چاہئے ، مجھے آپ کو ذہن سے نکالنا ہے ، اور ہمیشہ کےلئے بھول جانا ہے ، ایسے بھول جانا ہے کہ کوئی کہے کہ میں اور تم کبھی ملے ہی نہیں، اور ہم اجنبی تھے ، ہیں ، اور رہینگے بھی ، نہ میرے لئے سلام بیجھو ، نہ ہی میرا حال احوال پوچھو، میں ناراض ہوں۔
میں اسی لئے ناراض ہوں کہ آپ ہم سے اتنا جلدی جدا ہوگئے کہ میں کیا بیاں کروں ، میرے سمجھ سے باہر ہے ، یہ حقیقت ہے یا افسانہ ، مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ، اور نہ ہی ، میرے بس کی بات ہے ، میں آپ جیسے بہت سے مہربان لوگوں کو کھو چُکا ہوں ، آپ نہ جائیے ، مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہے ، آپ تو میرے استاد جیسے ہیں ۔
میں اگر آپ کو سوچوں تو ، یہ درد بھری شام گزرجائے ، یہ راتوں کی تاریکیاں گزر جائیں ، آفتاب اندھیری رات میں بدل جائے ، میں امیدوں سے بھرا آنسو بہاؤں ، تو ماہتاب بھی رو پڑے ، میں اگر امید چھوڑ دوں تو میرے روح بھی مجھ سے منہ پھیر لے ، میں اس کشمکش میں زندگی گزاروں کیسے ؟ میں آپ کو یاد کروں تو ، دل خون کے آنسو روئے ، میں اگر آپ کو بھولنے کی کوشش کروں تو ، تُم ہی یاد آؤ،بھولنا ،میرے بس کی بات نہیں۔
کیا یہ خواب نہیں حقیقت ہے ، کیا یہ افواہ نہیں ؟ کیا یہ جھوٹ نہیں ، کیا یہ سچ ہے
یہ جھوٹ نہیں
یہ افواہ نہیں ،
یہ سچ ہے ،
کہ تم نہ رہے ، یہ میں ماننے کو تیار نہیں ، کہ تم نہ رہے ، تم کیسے جاسکتے ہو ؟ ابھی بھی تمھارے خیالات ، نئے شاعریوں کا انتظار رہتا ہے ، ابھی بھی تمہارے میسج کا انتظار رہتا ہے ، یہ میں ماننے کو تیار نہیں کہ تم چلے گئے ہو ، میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ، میں نہیں رہ سکتا، میں اگر جانتا کہ تم ہمیشہ کےلیے رخصت ہونے کے لیے جارہے ہو ، میں تمہارے پاس ہی رہتا ، کہیں نہیں جاتا ۔
مجھے یاد ہے کہ میں جب آپ سے مِلا ، پہلا دِن تھا ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ ، آپ کون ہیں لیکن ، آپ کو میرے بارے میں معلوم تھا ، آپ مجھے اچھے طریقے سے جانتے تھے ، یہ بھی جانتے تھے ، کہ میں ہی شئے رحمت ہوں ، آپ نے مجھے کہا کہ شہید ڈاکٹر منان جان کا برسی آرہا ہے ، آپ نے کہا ۔۔۔ کچھ لکھا ہے ؟ میں نے کہا جی کیوں ؟ آپ نے بولا ویسے ہی لیکن ایسے وقت میں لکھنا چاہئے ۔ میں نے لکھا ہوا مضموں آپ کو دیا اور آپنے نے شائع کروایا ۔
آپ سے ملاقات اتنا زیادہ نہیں ہوا لیکن جتنا ہوا وہ ، بہت ہوا ، میں خوشی محسوس کرتا ہوں ، کہ میں نے آپ کو دیکھا ، لیکن دل ہی دل میں ، کبھی سوچتا ہوں ، آپ کو کیوں دیکھا ، نہ دیکھتا تو ہی اچھا تھا ، آپ کے جانے کا غم مجھے کتنا ہے ، وہ میرے اور میرے دل کو پتہ ہے ، آپ سے ملاقات نہ ہوتا تو دل میں اتنا درد نہ ہوتا ۔
آپ ایک مکمل فوجی ، ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے لکھاری ، ایک اچھے شاعر بھی تھے ، آپ کے لکھے ہوئے موضوع اور شاعریوں کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے، میں اپنے علم کی کمی کی وجہ سے وہ بیاں نہ کر پایا جو لکھنا چاہا، لیکن میرے طرح آپ بھی میرے اسی موضوع کو مزید پڑھنے کےلیے انتظار کرنا ، اگر زندہ رہا تو ضرور آپ کے بارے میں لکھتا رہونگا ۔ آپ واپس آجائیں ، آپ کا انتظار ہے ۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی زمہ داری مجید برگیڈ نے قبول کی ہے ، یہ ٹویٹ دیکھ کر جب مرد مجاہدوں ، کے تصویر دیکھے تو ، آپ انہیں میں تھے۔
نیچے لکھا ہوا تھا سلمان حمل عرف نوتک ، اسی وقت سے لے کر آج تک بھی آپ کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو یہی ، تصویر میرے آنکھوں کے سامنے گردش کرتا ہے ، لیکن یقین آج بھی نہیں آتا کہ آپ کا جدا ہیں ، آپ ہمارے پاس ہی ہیں ، دور نہیں ، آپ کا نظریہ ہمیشہ رہنمائی کرتا رہیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں