بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی ایک اور کاروائی جعلی نکلی، گذشتہ دنوں ماواڑ میں مارے جانیوالے افراد پہلے ہی سے زیر حراست تھے جو مختلف اوقات میں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے۔
دو روز قبل ترجمان محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے دعویٰ کیا کہ کوئٹہ سے تقریباً 60 کلو میٹر دور مارواڑ کے پہاڑی علاقے میں خفیہ اطلاع ملنے پر سی ٹی ڈی نے مسلح تنظیم کے ارکان کی موجودگی پر سرچ آپریشن کیا۔
سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران فورسز اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 4 افراد مارے گئے جب کہ کارروائی کے دوران 6 افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردوں کے زیر استعمال کمپاؤنڈ سے بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔
سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ مسلح تنظیم کے ارکان گذشتہ ایک ماہ سے فورسز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔
دوسری جانب دی بلوچستان پوسٹ تحقیقات کے بعد مذکورہ افراد میں سے کم سے کم ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جو جبری طور پر سالوں سے لاپتہ تھا جبکہ دیگر تین افراد بھی بڑھے ہوئے بالوں، داڑھی اور حلیئے سے پہلے سے زیر حراست افراد لگتے ہیں۔
ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ مارے جانے افراد میں ملا مادو مزارانی مری شامل ہیں جنہیں دو سال قبل کوئٹہ میں جتک اسٹاپ پر واقع ان کے گھر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔
ٹی بی پی نے سی ٹی ڈی کیجانب سے شائع کردہ ہلاک شدگان کے تصویروں کی جانچ پڑتال کی تو یہ سامنے آیا کے تمام چار افراد کو قریب سے سروں میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ یہ امر فائرنگ کے تبادلے یا آمنے سامنے کے مقابلے کے دعوے کو مزید کمزور کرتی ہے۔
بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی جانب سے ماضی میں بھی متعدد کاروائیاں جعلی ثابت ہوئے ہیں۔ رواں سال سی ٹی ڈی نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک جعلی مقابلے میں پانچ افراد کو قتل کیا تھا، جو پہلے سے ہی کئی مہینوں سے زیر حراست تھے۔
سی ٹی ڈی کے زیر حراست اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان سمیع اللہ اور جمیل بلوچ کو رواں سال جنوری میں فورسز نے گرفتار کرکے دو مرتبہ عدالت میں پیش کیا تھا۔ مارے جانے والے تین دیگر افراد میں عارف مری، یوسف مری اور شاہ نظر شامل تھے۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت انسانی حقوق کے کارکنوں نے مستونگ میں پانچ لاپتہ افراد کی حراستی قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ دیگر لاپتہ افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی تھی اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔