شکور بلوچ کا اختر مینگل کے دفاع میں لکھے گئے تحریر کے جواب میں – صغیر امین

434

شکور بلوچ کا اختر مینگل کے دفاع میں لکھے گئے تحریر کے جواب میں

تحریر: صغیر امین

دی بلوچستان پوسٹ

جناب شکور بلوچ نے مضمون کا آغاز بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا ہے جس میں دروغ گوئی، مبالغہ آرائی، تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے اور مغالطہ بازی کی مذمت کی ہے لیکن ان کی اپنی تحریر دلائل سے پاک، منطق سے عاری، اور سیاسی شعور کے فقدان سمیت خالصتاً چاپلوسی پر مبنی ہے۔ مکمل تحریر میں فقط اختر جان مینگل صاحب کو “غلطیوں” سے پاک کوئی فرشتہ صفت مخلوق دیکھایا گیا ہے جو کم از کم زمین نامی سیارے پر وجود نہیں رکھتی۔

صاحب قلم نے تحریر لکھنے کیلئے بڑے تحقیق کرنے کا دعویٰ تو ایسے کیا ہے جیسے سیاسی واقعات کو کسی تجربہ گاہ میں کیمیکلز سے رونما کیا ہو۔

بات کو آگے بڑھانے سے قبل چند سوالات انتہائی ضروری ہیں
اس تحقیقات کا مقصد کیا ہے؟
کیا یہ غیر جانبدار تحقیق ہے؟

تحقیق کیلئے بہت سے در کھٹکھائے بہت سے دانش وروں سے ملاقات کی گئی۔ جن میں کچھ کے نام درج کیے گئے ہیں ۔ بی این پی (اختر کی اپنی پارٹی) کا عبد الرؤف صاحب ،پروفیسر منظور بلوچ اور نیشنل پارٹی (اپنے عہد اقدار میں بلوچ نسل کشی میں سر گرم پارٹی) کے غفار بلوچ صاحب سے ملاقات کی گئی جن حضرات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اختر مینگل 28 مئی کے دھماکوں سے لا علم تھے۔ لہذا لفاظی کے سہارے کے بغیر یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ نام نہاد تحقیق فقط اختر جان مینگل صاحب کو امیر المومنین ثابت کرنے کی غرض سے کی گئی۔ جو کسی بھی سیاسی کارکن کو زیب نہیں دیتا بلکہ یہ تحقیق نہیں تاریخ کو مسخ کرنے کا تاریخی جرم ہے۔

کسی بھی تحقیق یا تاریخی واقعے کو زیر بحث لانے کا مقصد ماضی کی غلطیوں کو چھپانا یا کسی کو سپر مین ثابت کرنا نہیں ہوتا بلکہ ماضی سے سبق سیکھنا ہوتا ہے شاید جس اہلیت سے “واجہ ” قاصر ہے۔
خیر جناب نے اپنے رہنما، لیڈر اور قائد کو بے قصور اور مومن بنا کر پیش کرنے کے لیے یہ دلیل دی ہے کہ بظاہر تو اختر اقتدار میں تھے لیکن اصل اقدار ان سے اوپر جو بیٹھے ہیں ان کی ہاتھوں میں تھی یعنی نہ وزیر اعلی کو کچھ معلوم تھا اور نہ ان کے اختیار میں کچھ تھا ۔ وہ کہتے ہیں نا نادان کی دوستی میں ناک کٹوا دی بالکل شکور صاحب بھی یہی کر بیٹھے اور قائد اختر جان کو ایک کٹپتلی وزیر اعلی کہہ بیٹھے۔ خیر ہم تو شروع سے سارے اقتدار کے لالچیوں کو کٹھ پتلی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اور رہی لاعلمی کی بات تو ہم اس بات کو بالکل درست سمجھتے ہیں وہ فقط اس واقعے سے نہیں بلکہ اصولی سیاست سے بھی لاعلم ہے ۔ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے تو سیاست کی الف ب اپنی جگہ وہ تو شد مد سے بھی واقف نہیں اس لیے ان کے پاس خود کو سیاسی کارکن ثابت کرنے کا ایک ہی طریقے کار بجتا ہے وہ ہے اپنی سیاسی آقاؤں کی پرستش۔

لیکن پھر بھی ہم صاحب تحریر حق بجانب ہے کیونکہ وہ اپنی دلائل کے تحت کچھ اور نہیں ایک ہی بات ثابت کرنا چاہتے ہے اور وہ یہ ہے کہ اختر جان مینگل صاحب کو اقتدار ہی چاہیے اختیار سے انھیں کوئی سروکار نہیں اسی لیے وہ اب بھی اقتدار کی حصول کے ڈور میں جوں کے توں کھڑے ہے۔

جبکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کچھ ہوگا ان کی مرضی کے بغیر ہوگا تو ایسے اقتدار کے لیے مارے پھرنے کی کیا ضرورت ؟

فقط اپنے طبقے کی مفادات کا تحفظ کرنا! اسی طرح صاحب تحریر جو بہت ہی معصوم معلوم ہوتے ہے نواز شریف کو بھی بری الذمہ قرار دے کر اسے بھی 28 مئی کے دھماکوں سے لاعلم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہے کہ حاجی نواز شریف (موجودہ چی گویرا) کو تھوڑا تھوڑا معلوم تھا لیکن اختر پوری طرح بے خبر تھے۔ اسے فقط ایک اچھا لطیفہ ہی کہا جاسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

اگر نواز کو معلوم تھا تھوڑا تھوڑا ہی سہی ، تو اختر جان صاحب آج تک ان کے دم چھلا بن کر پی ڈی ایم کے ترانے پر رقص کرتے نظر کیوں آرہے ہیں؟

مختصراً مکمل تحریر کا مقصد تاریخ کو مسخ کرکے معصوموں کے لہو سے رنگین ہاتھوں کو بے گناہ ثابت کرکے انھیں کسی دیومالائی دیوتا کی طرح ثابت کرنا تھا ۔ لہذا ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے کیونکہ صاحب تحریر نمک کا حق ادا کررہے ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں