بلوچ لاپتہ افراد کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4328 دن مکمل ہوگئے۔ پشین سے محمد یوسف عبدالسلام سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غلامی کی اذیت ناک درد کو محسوس کرتے ہوئے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑنے والوں نے ان قوتوں کے خلاف ایک ایسی پرامن جدوجہد کا آغاز کردیا ہے جو کٹ مرنے سے ہی بقاء اور شناخت خوشحالی کا ضامن ہے ۔
ماما نے مزید کہا شہداء کے قربانیوں نے بلوچ قومی بقاء کی جدوجہد اور بلوچ قوم کو ایسی شناخت بخشی ہے جس سے پوری دنیا میں بلوچ زیر بحث ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے اپنی خوشحالی اپنی زندگی سمیت اہل و عیال کو تباہ دیکھ کر بیش بہا قربانیاں دی ہیں، ہزاروں بلوچ لاپتہ ہیں جو پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں آج ہزاروں مائیں بے اولاد، بہنوں کی بھائیاں بچوں کے باپ اور خواتین کی شوہر چھین گئی ہیں اور ہر گھر میں ماتم ہے۔ نواب اکبر بگٹی سے لیکر کسی کو نہیں بخشا گیا ہے۔
ماما کا کہنا تھا کہ ہزاروں لوگ اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرکے دیگر علاقوں میں در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں بلوچستان میں آئے روز فوجی آپریشنوں میں تیزی لائی جارہی ہے اس وقت بلوچوں کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اس وقت بلوچ قوم لاپتہ افراد کے بازیابی کے لئے ایک ایجنڈے کے تحت اتحاد کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جاری اس احتجاج کو ایک تحریکی شکل دیں۔