بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین طریف رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے صوبائی وزیر اور ہمارے حلقے کے نمائندہ ظہور بلیدی نے سیاسی انتقام کی بنیاد پر میرے گھر پر فورسز بھیج کر چھاپہ لگوایا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچی چادر و چار دیواری کی سنگین پائمالی کی، گھر کے اندر توڑ پھوڑ اور خواتین و بچوں کو دہشت کا نشانہ بنایا اور تمام بلوچی روایات و اقدار کو روندتے ہوئے آئین و قانون کی بھی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ظہور بلیدی کی براہ راست حکم و پریشر کے بغیر ایف آئی آر اور قانونی جواز کے میرے گھر پر میجر محمد رحیم کی سربراہی میں لیویز کے اسپیشل فورس حملہ آور ہوئے۔ میرے بارہا استفسار و دریافت کرنے پر فورسز کا کہنا تھا کہ انہیں “اوپر” سے پریشر دیا جا رہا ہے کہ اس گھر میں دہشتگرد رہتے ہیں جوکہ مسلح ہیں اور ہم اسی بنیاد پر آئے ہیں۔ مگر تلاشی و توڑ پھوڑ کے بعد جب انہیں کچھ موصول نہیں ہوا تو یہ کہہ کر چلے گئے کہ “آپ اپنے مسئلے ظہور بلیدی اور اسلم بلیدی کے ساتھ حل کریں۔”
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ظہور بلیدی اور اسلم بلیدی کیساتھ مسائل کی بات ہے تو ہمیں ظہور بلیدی اور اس کے گھرانے سے کوئی ذاتی اختلافات تو نہیں ہے مگر ہاں، انکے ساتھ سیاسی اختلافات بالکل رکھتے ہیں۔ انکی متعصب اور انتقامی سیاست کی ہم نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور آگے بھی کرتے رہینگے۔
ان کے مطابق ظہور بلیدی اور اسکا خاندان گزشتہ 35 سالوں سے بلیدہ زامران کے حلقے سے اقتدار کی مسند پر براجمان ہیں۔ اور انہوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کی اسی نوعیت کے انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ چھاپہ و گرفتاری سے آگے بڑھ کر انہوں نے اپنے مخالفین کو دن دیہاڑے قتل بھی کروائے ہیں جس میں علاقے کے معتبرین کی طویل فہرست شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ خاندان اقتدار کی مسند پر بیٹھا ہیں تو یہ قانون کی گرفت سے ہمیشہ آزاد رہے ہیں۔ قتل و غارتگری کرکے انہوں نے لاشوں کو سیڑھی بناتے ہوئے اقتدار کی گدّی پر اپنا قبضہ مضبوط کیا ہے۔
بلیدہ زامران کے حلقے میں جس قدر جنگی جنونیت کو اس خاندان نے ہوا دی ہے اس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ اس بکسہ چور ٹولے نے حلقے کے عوام کا جینا دوبر کر دیا ہے۔ مگر مجال ہیکہ کبھی کسی نے سرکشی کرکہ مخالفت کی ہو اور وہ ان کے قہر سے محفوظ رہا ہو۔ میرا خاندان انکی متعصب سیاست کا ہمیشہ شکار رہا ہے۔ مگر دہائیوں پر محیط انکے انتقامی جبر کے آگے ہم کبھی سرنگوں نہیں ہوئے اور ہمارا یہی اسٹینڈ انہیں کانٹے کی طرح چھبتا ہے۔
انہوں نے مذید کہا کہ ماضی قریب کے اندر اپریل2016 میں میرے گھر پر ایک دہشتگرد گروہ نے حملہ کر کہ ہم پر گولہ بارود برسائے جس میں گھر کے مہمان خانے میں موجود نصیب لانگو ساکن منگوچر (جوکہ برتن بیچنے والا مزدور تھا) شہید کر دیا گیا۔ جبکہ فاضل خدابخش (مزدور) سر پر گولی لگنے سے شدید زخمی کر دیا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ اکتوبر 2016 کو ایک بار پھر ہمارے گھر پر دہشتگردانہ حملہ کیا گیا جس میں میرا چھوٹا بھائی حاصل رند شہید کر دیا گیا۔ یہاں پھر ہمارا قصور نامعلوم رہا اور مجرم بھی نامعلوم رہے۔
انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں ڈیتھ سکواڈ کے منظم گروہ کا نام سامنے ضرور آیا مگر قانون کی گرفت میں کوئی نہ آسکا کیونکہ ان مجرموں کو ظہور بلیدئی جیسے بے تاج بادشاہوں کا تحفظ حاصل ہوتا ہے-
ظریف رند نے کہا کہ میں اپنے اسکول کے زمانے سے طلبہ سیاست کیساتھ جڑا ہوا تھا تو میں نے اپنی وہی سیاست جاری رکھی اور ایسے قتل و غارتگری اور نہتے عوام کو دہشت زدہ کرنے والے تمام جتھوں کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔ پرامن اور منصفانہ سماج کے تعمیر کی جدوجہد کرتا رہا ہوں۔ جابر و ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہوں۔
اس لئے آج ان حکمرانوں کی قہر و انتقامی سیاست کا شکار ہوں۔ شاید اس جدوجہد کے سفر میں ان حکمرانوں کی قہر و بربریت سے جان سے گزر جاؤں مگر ہماری تربیت کسی زمینی خدا کے آگے جھک جانے اور جدوجہد سے مرعوب ہونے کی قطعی صورت نہیں ہے، تو پھر سینا تھان کر جیئیں گے اور ہر اک امتحان سے سرخ رو ہو کر نکلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام جبر و زیادتیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائیگا۔حکمران ٹولے کی متصب و وحشتناک انتقامی سیاست کا خاتمہ ہوگا۔