مبارک گودی حسیبہ
تحریر: محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
اس خوشی کے عالم میں گودی آپ بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوکر اپنے خالق کا شکر ادا کر رہی ہونگی بالکل اسی طرح جب تکلیف اور درد کے وقت جب اپنے لوگوں کے طعنے اور غم میں شریک نہ ہونے کے حالت اور برتاؤ سے مایوس ہوکر سیدھا اسی بارگاہ کی طرف رخ کرتی اور اپنے خالق حقیقی کو درد بھرے لہجے میں زمینی خداؤں کی ظلم و جبر اور اپنے لوگوں کی مجرمانہ خاموشی کا شکوہ کرتی تھی. سب کچھ گزر گیا لیکن آپ اپنے زندگی کے ان لمحوں کو کبھی بھول نہ پاسکو گی۔ جس دن اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے گھر سے نکل کر ہر اس دروازے کو کھٹکھٹایا جہاں سے انصاف کی امید تھی. اس تکلیف کے عالم میں پاگلوں کی طرح شہروں، گلیوں کوچوں کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آنسو بہاتی تو کبھی کراچی پریس کلب کے سامنے چیختی، کبھی اپنوں کو منت سماجت کرتی تو کبھی نام نہاد سیاست دانوں کو اور کبھی مقتدرہ قوتوں سے چیخ چیخ کر اپنے بھائی کی رہائی کا بھیک مانگتی تھی.
کیا دن تھے وہ جب آپ اپنے بھائی کی جدائی کا درد لیے گھر سے نکلتی تھی. محلے سے سینکڑوں گھروں کے سامنے سے گزر کر اکیلی پریس کلب پہنچ جاتی تھی. شاید کبھی ایسا محسوس کیا ہوگا کہ ان گھروں میں نوجوان کوئی نہیں اگر ہوتے تو ضرور میری چیخ پر میرے پاس آتے. لیکن نہیں گودی ایسا ہر گز نہیں تھا. نوجوان تو تھے لیکن وہ نوجوان بھی میری طرح تھے، جن کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ صرف سوشل میڈیا تک محدود تھا. آپ کی آنسو بہاتی فوٹو کو تو سب ہمدردی کے بنیاد پر اسٹیٹس پہ لگاتے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے لیکن کسی میں اتنا جرات نہیں ہوا کہ پریس کلب تک آپ کے ساتھ چلتی. گودی شاید کئی بار آپ اس بات پر بھی دھوکہ میں پڑ گئیں ہونگی کہ سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں کے ہمدردیاں دیکھ کر اس سوچ کے ساتھ احتجاج پر نکلی ہوگی کہ یہ لوگ میرے ساتھ آئیں گے لیکن جب چوک یا پریس کلب پہنچ کر ان چند نوجوان کو دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا ہوگا. کیونکہ مجھ جیسے نوجوانوں کے ضمیر صرف سوشل میڈیا میں جاگتی ہے بس عملی میدان میں ایک قدم تک نہیں اٹھا سکتے.
بس آپ کی ہمت اور حوصلے کو سلام. ڈٹ کر تمام مشکلات اور مصیبتوں کو مقابلہ کیا. آپ کی ہمت سے دوسرے لاپتہ افراد کے خاندان بھی اٹھ گئے اور اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد شروع کی. گودی آپ آخر تک بلکل اسی طرح اکیلے اپنے بھائی اور کزن کے بازیابی کی جدوجہد کو جاری رکھا جس طرح پچھلے گیارہ سال سے ماما قدیر بلوچ نے جاری رکھا ہے. ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد بلوچ تاریخ کا ایک انمول باب ہے. ماما کی ہمت اور حوصلے کی مثال بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی. دنیا کی تاریخ میں شاید ایسے مثال موجود ہو.
گودی حسیبہ جب آپ اپنی زندگی کے ان تکالیف اور درد سے بھری لمحوں کو یاد کرکے لکھو گی تو یہ ضرور لکھنا کہ ایک بہن اپنے بھائی کی رہائی کیلئے گلی کوچوں شاہراہوں اور پریس کلبوں حتی کہ دیار غیر میں جاکر چیختی رہی چلاتی رہی لیکن بلوچ نوجوان اپنے موج مستی میں مگن تھے. ہوٹلوں پر ایسے مستیوں میں گم تھے کہ ان کو اپنے ماؤں اور بہنوں کی آنسو تک نظر نہیں آتے تھے. بلوچ نوجوان اس حد تک خواب غفلت میں پڑے تھے کہ ہر ہفتے کو جشن مناتے تھے. گودی جب قلم اٹھایا ضرور ان کی مردہ پرستی اور بے ضمیری کے قصے رقم کرنا. صرف یہاں تک نہیں روکنا بلکہ اپنے ان دانشوروں کی مجرمانہ خاموشی کو بھی تاریخ کا حصہ بنانا. یہ ضرور لکھنا کہ جب بلوچ مائیں اپنی لخت جگر کی بازیابی کیلئے چِلا رہی تھی رو رہی تھی دانشور اپنے تنخواہوں اور آسائشوں میں مصروف تھے. اس حد تک لاپرواہی اور غفلت میں پڑے تھے کہ اپنے ماؤں اور بہنوں کی دکھ درد کو بھول کر سرکار سے ایوارڈ وصول کر رہے تھے. گودی ان خاندانوں کی ہمت اور حوصلوں کو بلند کرنے کیلئے اپنے ہمت کی داستان بھی لکھنا کہ کس طرح اپنوں سے ناامید ہوکر بھی جدوجہد کو جاری رکھا.
ان سیاسی پنڈتوں کی جھوٹی تسلیاں اور اپنے سیاست کو چمکانے کیلئے تکلیف میں مبتلا خاندانوں کے آنسوؤں کو استعمال کرنا، اپنے ذاتی مفاد اور مقصد کیلئے بلیک میلنگ کے طور پر بھی ان خاندانوں کے جدوجہد کو استعمال کرنا پھر خاموش رہنا ایسے کرداروں کو بھی ظاہر کرنا.
بس آخر میں یہی کہوں گا کہ گودی اپنے بھائی کو اپنوں کی دور بھاگنے، لاپرواہ ہونے اور اس درد سے آزاد رہنے کی بزدلانہ حرکت سے آگاہ کرنا اور اپنے خاندان کی ان اذیت ناک دن اور راتوں کی بے بسی کے واقعات کا بھی زکر کرنا کہ کس طرح بھرے محلے میں صرف ایک گھر اس اذیت اور درد سے گزر رہا تھا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں