بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4300 دن مکمل ہوگئے۔ ڈیرہ غازی خان سے عبدالستار بزدار، نور محمد، عزیز اللہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی والدہ نے کیمپ آکر ذاکر مجید اور لاپتہ زائد کرد بلوچ کیلئے احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد دھرنے کو دو مہینے ہوگئے جہاں پاکستان کے وزیر برائے انسانی حقوق نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ کے لاپتہ افراد بازیاب ہونگے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو پاکستان کی عدالتیں موجود ہیں انہیں وہاں پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا ذاکر مجید کے والد اپنے قوم کا خدمتگار تھا وہ اسکولوں اور دیگر اداروں کے تعمیر کیلئے کوشاں تک مگر انہیں بھی انتخابات کے روز قتل کیا گیا۔ میرے ساتھ یہ ریاست کئی عرصوں سے ناانصافیاں رواں رکھی ہوئی ہے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستانی فوج نے بلوچستان میں پانچ مرتبہ فوجی آپریشن کیے اور بلوچستان کے لوگوں کو کبھی حق نہیں دی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر وقت رپورٹ دیتی ہیں کہ بلوچستان کے ہر ضلع میں طلباء اور دوسرے سرگرمیوں کو دبانے کیلئے چھاونیاں قائم ہیں جہاں ان کو قیدر رکھا جاتا ہے اور ٹارچر کیا جاتا ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ 2001 سے بلوچستان میں بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں اور اس کی نیم فوجی دستہ ایف سی نے بلوچستان کے امن امان کے نام پر کنٹرول اور پولیس پاورز اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے زیادہ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بلوچستان کی فیصلہ سازی اب فوج یا اس کے ذیلی ادارے کررہے ہیں۔ انسانی حقوق ہو، سیاسی مسئلہ ہو یا ترقیاتی یا سیکورٹی کا کی، ہر بات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کررہی ہے۔