جنسی زیادتی – زرینہ بلوچ

422

جنسی زیادتی

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنسی زیادتی کو جنسی بد سلوکی یا جنسی تشدد بھی کہا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی کا مطلب زنا بالجبر (ریپ) ہے۔

ہمارے ہاں انسان کے روپ میں خطرناک درندے گھوم رہے ہیں ۔ کہنے کیلۓ انسان ہیں لیکن انکی حرکتیں دیکھ کر شیطان بھی توبہ کر لے۔ ہوس کے پُجاریوں نے معصوم بچے کو بھی نہ چھوڑا۔ دس یا بارہ سال کے بچے کے ساتھ زیادتی کا واقعہ دل دہلا دینے والا سانحہ ہے۔جسے چاہ کر بھی میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُس بچے کا کیا قصور تھا ؟جسے درندوں نے اپنا شکار بنا لیا۔

میں آج جنسی زیادتی کے بارے میں لکھنے جا رہی ہوں، آج شاید پہلی دفعہ لکھتے وقت میرےہاتھ تھر تھرا رہے ہیں عجیب سی کیفیت ڈر اور بے چینی محسوس ہو رہی ہے۔ دل اور دماغ میں صرف یہی ایک سوال آ رہی ہے کہ کوئی ایسے کیسے بے رحم ہو سکتا ہے رمضان کے مبارک مہینے میں بھی اپنے ہوس کو کنٹرول نہیں کر پائے اور ایک چھوٹے سے بچے پر اُسے ترس نہ آئی۔

جب اس معصوم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی، پتہ نہیں اُس نے کتنی دفعہ فریاد کی ہوگی، اپنے ماں کو پُکارا ہوگا، کتنی دفاع اللہ پاک کا نام لیا ہوگا۔اُس کی آہ اور فریاد سے آسمان لرز گیا ہوگا اور عرش بھی ہل گئی ہوگی پتہ نہیں وہ معصوم کتنے ازیتوں اور کرب سے گزرا ہوگا، اسکی بے بسی دیکھ کر فرشتے بھی روۓ ہونگے لیکن ان ظالموں کو تھوڑا بھی رحم نہ آیا نہ ان کے ضمیر نے انکو روکنے کی کوشش کی۔

جو قانون کا رکھوالا تھا جسے ہمارے تحفظ کیلے بھیجا گیا تھا وہی ایک درندہ اور بھیڑیا نکلا۔

جو دعوے کرتے ہیں کہ ہم آپ کے تحفظ کیلۓ اتنے دور آہ کر رہ رہے ہیں ہم یہاں امن کیلۓ آۓ ہیں کیا بچے کے ساتھ یادتی کرکے امن قائم کیا جاتا ہے قانون کا رکھولا ایک خونخوار درندہ نکلا۔

جنسی زیادتی کے واقعات اسلۓ بڑھ رہے ہیں کیونکہ یہاں پر کوئی کچھ کہنے اور کرنے والا نہیں یہاں آسانی سے مجرم بری ہو جاتا ہے اور اسکے خلاف ثبوتوں کو خود قانون کے رکھوالے مٹا دیتے ہیں۔

پاکستان کہنے کو اسلامی مُلک ہے لیکن یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں بچے مدرسے جاتے ہیں تو وہاں مدرسے کا اُستاد اُنہیں اپنا شکار بنا لیتا ہے، اگر بچے گلیوں میں کھیلنے جاتے ہیں تو معاشرے کو کچھ بے ضمیر انسان اپنا شکار بناتے ہیں یا کھبی کھبار ایسے بھی واقعات سُننے کو ملتے ہیں کہ چچا نے بھتیجے کا ریپ کیا ہے کچھ وقت کے جسمانی سکون کیلۓ بچوں کی پوری زندگیاں برباد کر دی جاتی ہیں۔ لیکن کوئی کچھ بھی نہیں کرتا ہمارے حکمران ایک جھوٹی بیان دے کر مذمت کرتے ہیں لیکن ہمت نہیں کرتے، کسی مجرم کو سزا دینے کی اگر کسی ایک وحشی کو سرے عام پھانسی دی جاتی تو آج اتنے واقعات نہ ہوتے۔

ہوشاپ میں جو واقعہ ہوا ہے ،اُسکا زِمہ دار ایف سی ہے۔ پہلے اوپریشن کے نام پر لوٹ مار کرتے تھے عورتوں کو حراساں کرتے تھے اب بچوں کے ساتھ ذیادتی کرنے لگ گۓ ہیں۔

قصور کا زینب سب کو یاد ہوگا اگر اُس وقت زینب کے ساتھ ذیادتی کرنے والے کو پھانسی دی گئی ہوتی تو ایسے واردات نہیں بڑھتے۔

اس بار کچھ بھی ہوجاۓ مجرم چاہےکوئی بھی ہو، اُسے سرے عام جب تک پھانسی نہیں دی جاتی تب تک عوام کو احتجاج کرنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں