بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4289 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر بلوچ قوم کو نقصان ہورہا ہے دوسری جانب داخلی طور پر بھی ہر دو افراد اٹھ کر ایک اخباری بیان سوشل میڈیا پر کسی نام سے، کبھی وطن کے نام، کبھی فکری کونسل، کبھی اتحاد کے نام سے کوئی تنظیم سامنے لاتے ہیں، کیا یہ بلوچ قوم اور شہداء کے لہو کیساتھ مذاق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غلامی کا عمل انسانی زندگی کے تمام تخلیقات جو معاشرے سے وابستہ ہوتی ہے کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور انسان کو ایک خالی خولی ڈھانچے کے سوا کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی، غلامی کے سبب انسانی اپنی حقیقی وجود سے بھی واقفیت کھودیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی غلامی قوموں کی تقسیم در تقسیم کا عمل ہے جو پورے سماج کے معاملات کو درہم برہم کردیتی ہے اور کسی قوم کو مختلف گماشتوں کی شکل میں، مختلف گروپوں میں، پارٹیوں، تنظیموں میں بانٹ کر مختلف شکل دیتی ہے جو اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی غلام لیڈر لوگوں کو غیر فطری عمل یعنی مفادات، نعرے بحث و مباحثہ یا عارضی ترقیاتی کاموں میں الجھا کر انہیں قابض کے مفادات کے تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں قابض کے اداروں کی جانب سے باقاعدہ ٹاسک دیا گیا ہوتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ ہمیں اپنے صفحوں میں ایسے برائے نام، سوشل میڈیا والے تنظیموں سے محتاط رہتے ہوئے سیاسی غلامی سے بچنا چاہیے۔ ریاست اپنے زرخریدوں کو جس طرح پروٹوکول دے کر نوجوانوں کو اغواء، قتل عام اور منشیات فروشی کو فروغ دے رہی ہے اسی طرح نام نہاد تنظیموں کے ذریعے بلوچ فرزندوں کے بازیابی میں زہر افشانی کروا رہا ہے۔