بس کریں بایزید خروٹی صاحب
تحریر: ثناءاللہ مینگل
دی بلوچستان پوسٹ
کافی عرصے سے جیسے میرے قلم کی نوک کو زنگ سی لگ گئی تھی دل بیچین سا ہورہا تھا کہ کیا لکھوں؟ آئے روز سوشل میڈیا پر مہنگائی کا رونا ناحق لوگوں کا قتل مسنگ پرسنز کا معاملہ اغواء برائے تاوان بجلی، گیس کی محرومیاں بے روزگاری، رشوت بلوچستان میں عام سی ہوگئی ہیں۔ہماری میڈیا تو اللہ خیر کرے یہاں بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہے کوئی صحافی کچھ بولنے اور لکھنے کو تیار نہیں ہے کچھ وقت سے یہاں چوٹی چڑیا کے نام سے ایڈمین بایزید خان خروٹی صاحب نے جس طرح بلوچستان میں سوشل میڈیا پر بلوچستان کے مسائل پیش کرنا شروع کیا تو ایسا لگا جیسے کوئی تو جوان آیا جو بنا ڈرے آواز بلند کررہا ہے۔ سوراب میں لیویز اور ایکسائز کی اہلکاروں کو جس طرح رشوت کے ساتھ پکڑ کر دکھایا قابل تعریف تھی۔ کچھ دن خروٹی صاحب تو اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے اٹھائے گئے تھے۔تو عوام نے ان سے اظہار یک جہتی کرکے سوشل میڈیا پر اس کے حق میں موجودہ گورنمنٹ پر خروٹی کی آزادی کی کیمپین بھی چلائی اب چونکہ ایک اور بھی مسئلہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا چل رہا ہے سرکاری ملازمین کئی دنوں سے تنخواہ بڑھانے کے لیے احتجاج کررہے ہیں، حکومت خاموش تماشائی ہے مگر اس بار پتہ نہیں کیوں خروٹی صاحب نے بازی پلٹ دی؟ اور اسی حکومت کی جو ہر وقت مخالفت کیا کرتا تھا آج اسی حکومت کی تعریف اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر آئے روز پوسٹ کر رہا ہے۔
خروٹی صاحب کا موقف یہی ہے کہ سرکاری ملازمین صرف تنخواہیں بٹور رہی ہیں لیکن عوام کو یہی سرکاری ملازمین کام کے دوران کچھ فیسیبیلٹی نہیں دیتی حکومت ان کی تنخواہیں نہ بڑھائے۔خروٹی کی ان باتوں سے تو صاف لگ رہا ہے کہ وہ لفافہ صحافی بن گئے ہیں، اتنی محنت وہ لفافہ صحافی بننے کے لیے کررہے تھے ، خروٹی صاحب آپ کی قلم اور آپ کی صحافت اس وقت کہاں تھا، آپ نے اسی وقت کیوں انہی ملازمین کو کوریج نہیں دیا، جب یہ عوام کو سہولیات نہیں دے رہے تھے؟ آپ کا تو حق بنتا تھا کہ اس کو ان کی سستی جو میڈیا پر دکھاتے سب سرکاری ملازمین ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں بہت سے محنت کش ملازمین ہے کچھ دن پہلے ایک سرکاری ملازم سے میری اچھی خاصی گفتگو ہوئی تو اس کا کہنا تھا ثناءاللہ بھائی آپ یقین کرینگے میری سروس 16 سال ہے اور میری تنخواہ 32 ہزار ہے اور ان 16 سالوں میں ابھی تک میں اپنا ذاتی گھر تک نہیں لے سکا ہوں آپ بتائیں ان پیسوں میں میں گھر کا کرایہ دوں؟بجلی کا بل؟گیس کا بل؟ گھر کا خرچہ کیا کیا کروں؟ بس اللہ چلا رہا ہے۔
خروٹی صاحب کچھ عزت جو آپ نے کچھ عرصے میں کمائی تھی خدارا اسے ختم نہ کریں ۔اگر صحیح معنوں میں کوریج نہیں دے سکتے تو خاموشی آپ کے لیے بہتر ہے مگر لفافہ صحافی نہ بنیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔