بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ایچ آر سی پی کے زیر اہتمام ایس پی او اور این آر ایس پی کے تعاون سے ملا فاضل ہال ایس پی او میں تقریب منعقد کیا گیا۔
تقریب میں خواتین کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تقریب کے دوران شاہینہ شاہین اکیڈمی آف آرٹس کی جانب سے پینٹنگ کی نمائش بھی کی گئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے رییجنل کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ عورتوں کی حقوق کے لیے تحریک 1850 کو شروع ہوئی 1910 کو عالمی کانفرنس کے دوران عورتوں کے حقوق تسلیم کیے گئے اور پہلی بار 1911 کو عالمی دن کے طورپر 8 مارچ منایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 10 دسمبر 1941 کو انسانی حقوق کی عالمی منشور کی منظوری دی گئی جبکہ 1979 کو سیڈا کنونشن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عورتوں کے خصوصی حقوق کا چارٹر منظور کیا، جس کے تحت عورتوں کے چند مخصوص حقوق جن میں امتیازی سلوک سے تحفظ، شادی میں رائے لینے کا حق، ازدواجی زندگی اور طلاق میں برابر حیثیت، دوران حمل سخت کام سے پرہیز، دوران حمل چھٹی کا حق اور حمل کے دوران سزائے موت میں تاخیر جیسے خصوصی حقوق شامل ہیں منظور کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں مدرسری نظام کا بہت لمبا دور تھا معاشی اور معاشرتی حالات نے پدرسری نظام کے لیے راہ ہموار کردی جس کے باعث عورتوں کی بالادستی کا خاتمہ ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایک دن ایسا لازم آئے گا جب نظام متوازن ہوگا کسی کی بالادستی نہیں ہوگی۔
تقریب سے تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عورت کے نام سے ایک دن موسوم کرنا یہ ثابت کرتی ہے کہ عورت اب بھی زیرپا ہے،خدا نے انسانوں کو برابر پیدا کیا مگر سماج نے ان کے درمیان تفریق پیدا کی،بدھ مت مذہب میں جینڈر کی تفریق نہیں جس میں مرد و عورت برابر ہیں۔
انہوں کہا کہ بدبختی یہ ہے کہ خود ایک عورت بطور ماں بیٹی کے بجائے بیٹے کو ترجیح دیتی ہے، دنیا میں کئی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے اپنی مہارت و بہادری کے سبب نام کمایا جن میں رضیہ سلطانہ جیسی کردار شامل ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ بلوچ نے کہاکہ پاکستان میں دوران حمل اموات کا شرح ہوشربا ہے خصوصاً بلوچستان میں ہرسال ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 298 موت کے شکار بنتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2020 کو ٹیچنگ ہسپتال تربت میں 11 اموات ہوئیں جو ریکارڈ ہے۔
انہوں کہاکہ گھروں میں آج بھی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی ہے، بیٹے کی پیدائش پر ماں اور فیملی ممبران زیادہ خوش ہوتے ہیں جبکہ بیٹی کی پیدائش پر تاسف کا اظہار کیا جاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ جدید سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بیٹے اور بیٹی کی پیدائش میں سارا عمل دخل باپ کا ہوتا ہے، بچیوں کو کم عمری میں شادی کرانے کے نقصانات نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، ایک عورت جب بچہ ہے تو ان کی شادی کی جاتی ہے جس کا ان پر سائیکالوجیکل اثرات پڑتے ہیں شادی کے فورا بعد وہ حاملہ بن جاتی ہے پہلا بچہ ان کی گود میں ہے کہ کم سن ماں دوسرے بچے کو پھر حاملہ بن جاتی ہے جس سے ان کی زندگی تباہ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر ہو تاکہ عورت اپنی بلوغت مکمل کرسکے۔
تقریب سے شگراللہ یوسف، حاجی عبدالرشید، شہناز یاسین، ایڈوکیٹ رستم جان گچکی، سائرہ آدم، شیرین آدم، فضیلہ عزیز دشتی، شہناز شبیر و دیگر خطاب کیا۔
تقریب کے آخر میں شاہینہ شاہین اکیڈمی آف آرٹس کی طرف سے آرٹ کی نمائش کی گئی ۔