بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں اجتماعی سزا کی بربریت پر مبنی پالیسی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں تیزی لائی جارہی ہے۔ آج خضدار کے علاقے باغبانہ سے بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر خدا بخش بلوچ کے دو بیٹوں کو پاکستانی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ ایک طرف جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانیاں کی جا رہی ہیں کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کیا جائے گا، دوسری طرف لوگوں کو بڑی تعداد میں جبری گمشدگی کا شکار بناکر خفیہ تشدد خانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ عبدالوحید اور نثار احمد کو اجتماعی سزا کے پالیسی کے تحت ان کے والد ڈاکٹر خدابخش کے بی این ایم سے وابستگی پر اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ عبدالوحید کو اس سے پہلے دو ہزار اٹھارہ میں بھی اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا تھا، بعد میں اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا جھاؤ کے پہاڑی سلسلے سورگر میں ایک اور وسیع آپریشن کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس میں لوگوں کو نشانہ بنانے، مال و متاع لوٹنے کے علاوہ 13 لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر فوجی زندانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان میں جمل ولد قادربخش، فیض محمد ولد قادربخش، علی بخش ولد قادربخش، غوث بخش ولد مراد، رمضان ولد مراد، ارشد ولد مراد، ثناء اللہ ولدمحمدحسین، منظور ولدمحمدحسین، یارمحمد ولد محمدنور، محمد عارف ولداللہ بخش، عبدالواحد ولد رسول بخش، چھٹہ ولد الہ یار، رسول بخش ولد نورا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض پاکستان نے بلوچ وطن کو ایک وسیع اذیت خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر فوجی آپریشنوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں کے دور میں ان مظالم میں بتدریج اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ مشرف دور میں جبری گمشدگی، پی پی دور میں مسخ شدہ لاشیں، مسلم لیگ کے دور میں سی پیک منصوبے کے بعد ان میں لوگوں کی زبردستی نقل مکانی کا اضافہ اور اجتماعی سزا کا اضافہ کیا گیا اور موجودہ حکومت میں اس بربریت میں نئی شدت لائی جا رہی۔ یوں بلوچستان میں نسل کشی نئی حدوں کو پہنچ چکا ہے۔ اگر عالمی ادارے اس پر مزید خاموش رہے تو یہ صورتحال ایک بھیانک شکل اختیار کرکے اسے روکنا ناممکن ہوجائے گا۔