پاکستان کے قومی اسمبلی کمیٹی برائے انسانی حقوق اجلاس بدھ کے روز منعقد ہوا۔ اجلاس میں حکومت ارکان شامل تھے جبکہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ حسان قمبرانی کی بہن اور حزب اللہ قمبرانی کی کزن حسیبہ بلوچ بھی اجلاس میں شریک تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے حکومتی ارکان نے حسیبہ قمبرانی کو سنے بغیر اجلاس سے واک آوٹ کیا۔
اجلاس کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے حسیبہ بلوچ کا کہنا تھا کہ میرے دو بھائی پہلے بھی جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اور بعد میں ان کی مسخ لاشیں برآمد ہوئی۔
حسیبہ قمبرانی بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار حسان قمبرانی و حزب اللہ قمبرانی کی ہمشیرہ ہیں اور گذشتہ دنوں اسلام آباد دھرنے میں شریک تھیں۔ اس سے قبل وہ کوئٹہ میں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے مظاہروں اور احتجاجی کیمپ میں شرکت کرچکی ہے۔
اجلاس قومی اسمبلی کے کمیٹی برائے انسانی حقوق کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر شیرین مزاری بھی شریک تھی۔
اس موقع پر حکومتی اراکین نے محسن داوڑ کے اجلاس میں موجودگی پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے حسیبہ قمبرانی کی موقف سنے بغیر اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
حسیبہ قمبرانی نے اپنے بھائی حسان قمبرانی اور کزن حزب اللہ قمبرانی کے جبری گمشدگی کے بارے اجلاس کو معلومات فراہم کیے جنہیں ایک سال قبل کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی سے گرفتاری بعد لاپتہ کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں حسیبہ قمبرانی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے سمیت اپنے بھائیوں سلمان قمبرانی اور گزین قمبرانی کے جبری گمشدگی بعد مسخ شدہ لاشیں ملنے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
سلمان قمبرانی اور گزین قمبرانی کو جولائی 2015 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ بعدازاں اگست 2016 کو ان دونوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی۔ لواحقین کے مطابق انہیں ان کے گھر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا تھا۔
یاد رہے چند روز قبل بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار 13 افراد کے لواحقین نے اسلام ڈی چوک پر دھرنا دیکر اپنے پیاروں کی بازیابی اور بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔
ان لواحقین میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ لاپتہ بی ایس او رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئرمین نصر اللہ بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک تھے جن سے بعد ازاں حکومتی ارکان نے مذاکرات کرکے دھرنا ختم کردیا تھا۔
دریں اثناء پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کی جس میں لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسنگ پرسنز پر بننے والے کمیشن نے بہت پیشرفت کی ہے، کمیشن میں 6 ہزار سے زائد مقدمات میں سے 4 ہزار حل کیے جاچکے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔
انہوں نے ہزارہ کان کنوں کے قتل کے حوالے سے بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مچھ میں ہزارہ کان کنوں کے قتل پرچند افراد کو حراست میں لیا ہے، یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن مزید تفصیل نہیں دے سکتا۔
تاہم دوسری جانب بلوچ حلقے پاکستان فوج کے ترجمان کے دعووں پر عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ گذشتہ دنوں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے تین سو لاپتہ افراد کی بازیابی کی بات کرنے والے حکومتی اراکین روزانہ ہونے والی جبری گمشدگیوں پر بھی بات کریں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کو پہلے مرحلے میں پانچ سو افراد کی ایک فہرست دی گئی تھی جبکہ اس طرح کے ہزاروں نام موجود ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔