لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین محمد بلوچ نے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن برائے نام ہے اور لواحقین کے ساتھ تعاون نہیں کررہی ہے۔
سمی بلوچ کا کہنا ہے کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری طور پر اغواء کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کی بحفاظت بازیابی کے لیے پاکستان کے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ سمیت دیگر اداروں تک جاچکی ہوں لیکن مجھے کہیں انصاف نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ بعد میں جب پاکستان میں لاپتہ افراد کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا تو میں 2014 سے 2017 تک میں مسلسل اس کے سامنے پیش ہوئی لیکن تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے ایک مرتبہ میں کمیشن پیش نہیں ہوسکی تو انہوں نے میرے والد کا نام کمیشن سے خارج کیا، اس کے بعد میں نے دوبارہ والد کی نام کمیشن میں پیش کرنے کی درخواست کی اور گذشتہ سال سے ابتک کمیشن میں پانچ مرتبہ پیش ہوچکی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جب میں کمیشن کے سماعت میں پیش ہوتی ہوں تو کمیشن بہانے بنا کر کہتی ہے کہ رپورٹ مکمل نہیں ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ آفیسر نہیں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن میں آئی ایس آئی، ایم آئی پولیس دیگر اداروں کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور انکا رویہ لواحقین کے ساتھ سخت ہوتا ہے اور لاپتہ افراد کی لواحقین کے ساتھ یہ ادارے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔
We don’t understand why has this commission on inquiry on enforced disappearances been created. Just like other HR Orgs in Pakistan, this commission’s concern for human rights is in name only.
My father was abducted in 2009 and till date there has been no progress in his case. pic.twitter.com/XI6z8a9W1b
— Sammi Deen Baloch (@SammiBaluch) February 9, 2021
انہوں نے کہا کہ میں نے کمیشن کو بتایا کہ میں بارہ گھنٹے کا سفر کرکے جب یہاں (کوئٹہ) آتی ہو تو بہت سے مشکلات ہوتی ہیں
مجھے میرے ابو کے بارے میں کچھ بتائیں تو کمیشن نے کہا کہ آپ نہیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیشن صرف برائے نام کا ہے جس طرح پاکستان میں دیگر انسانی حقوق کے لیے بنائے گئے ادارے صرف نام کے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سے کمیشن بنا ہے اس میں لواحقین کو سنا نہیں گیا ہے اگر یہ کمیشن لاپتہ افراد کے لیے بنایا گیا ہے تو سنجیدگی سے لواحقین کو سنا جائے۔
خیال رہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن رواں سال 8 فروری سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کیسز کی سماعت کررہی ہے۔ کمیشن وفاقی حکومت کی ہدایت پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
آج میں لاپتہ افراد کے مطلق بنائے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہوئی۔انہوں نے کہا کہ انہیں ابھی تک معلوم نہیں کہ میرے بھائی شبیر بلوچ کہاں ہے۔ شبیرکو اکتوبر 2016 میں سیکورٹی فورسز نے اغوا کیا تھا۔ یہ کمیشن ناکام ہوچکی ہے بس دنیاکو گمراہ کرنے کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کررہاہے۔
— Seema Baloch (@SeemaBalochh) February 8, 2021
کمیشن کی سربراہی بلوچستان ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس فضل الرحمٰن کررہے ہیں۔
تاہم لاپتہ افراد کی لواحقین اس کمیشن سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے نے مختلف اوقات میں کمیشن کی رویہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ روز بی ایس او آزاد کے لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی بہن نے کمیشن میں پیش ہونے کے بعد کہا تھا کہ میرا بھائی پاکستانی سیکورٹی فورسز کے یہاں ہے۔ شبیر کو اُس کے بیوی کے سامنے اغواء کیا گیا تھا۔ اگر کمیشن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ سیکورٹی اداروں کو شبیر سمیت باقی لاپتہ افراد کے مطلق پوچھ سکے تو خدارا ہمارے کیسز کو خراب مت کریں اور یہ تسلیم کرے کہ سیکورٹی فورسز ان کی نہیں سُنتے۔
یاد رہے کہ کہ گذشتہ سال انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئی تھی اور انہوں نے کمیشن کی رویہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے سربراہ جسٹس فضل الرحمان نے لواحقین کے ساتھ سخت بدتمیزی کی۔
ان کے مطابق “جب ہم نے ان سے لاپتہ افراد کی حوالے سے مدد مانگی تو کمیشن سربراہ نے بدتمیزی سے کہا کہ جب میں یہاں سے اٹھونگا تو باہر تم لوگوں کو خیرات میں پیسے دے دونگا۔”
لاپتہ افراد کی لواحقین کے مطابق ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مجبوری کی حالت میں پیش ہوتے ہیں تاہم“کمیشن مکمل طور پر خفیہ اداروں کے اشاروں پر چلتی ہے اور ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔”
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق تنظیم 2012 سے کمیشن سے بائیکاٹ کرچکی ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین خود کمیشن میں کیس دائر کرکے پیش ہورہی ہے لیکن کمیشن کی کارکردگی اسی طرح مایوس کن ہے۔