تحریر: کوہ باش مینگل
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بلوچ عوام کی قتل عام میں ریاستی فورسز اور اس کا خفیہ ادارہ ISIبراہ راست ملوث ہے۔اور ان تمام حربوں میں قبضہ گیر اپنی قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کررہا ہے اور بلوچوں کو ان کے حقیقی مقصد جہدِ آزادی سے ہٹانے کیلئے یہ سب کچھ ریاستی ادارے کررہے ہیں۔ آزادی پسند بلوچوں کی غیر قانونی اغواء نما گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں۔
بلوچوں کو ان کے حقیقی مقصد جہدِ آزادی سے قبضہ گیر ریاست کیا! دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں رُوک سکتا۔ ریاستی فورسز کی بربریت اور ظلم و جبر کے داستانوں نے بلوچ کیا! دنیا کو بھی مجبور کیا ہے کہ وہ بلوچ اور بلوچستان کیلئے اپنی آواز بلند کریں۔ امریکی حکومتی ترجمان کا بلوچوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر اظہار تشویش۔
متعدد بار ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے بیان آیا ہے کہ بلوچستان میں جاری غیر انسانی واقعات جس میں بلوچوں کی اغواء ،اذیت خانوں میں تشدّد اور بعد میں مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی پر تشویش ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کو ایسے واقعات کی تحقیقات کرکے اس قسم کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کو روکے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ،کے بانیوں میں سے ایک سماجی کارکُن عاصمہ جہانگیراور حامد میر سمیت کئی صحافی حضرات اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کرچکے ہیں کہ بلوچ لاپتہ اسیران کے حراستی قتل عام میں وفاقی ایجنسیاں اور ایف سی ملوث ہے۔ انہوں نے کئی لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں سے دوران ملاقات اور دیگر مختلف مواقعوں میں کہا ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور تشدّد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں براہ راست پاکستانی خفیہ ادارے اور ایف سی ملوث ہیں۔
ہمیں پاکستانی حکومت سے کوئی توقع نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ پاکستان اور اس کی فوج کُھل عام کررہے ہیں ۔اس وقت بلوچستان میں آزادی پسندوں اور سرگرم سیاسی کارکنوں(اسٹوڈنٹس،دانشوروں، آدیبوں) کی خفیہ اداروں اور نیم فوجی ادارہ فرنٹیئر کور کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر گمشدگیاں ہو رہے ہیں۔ بی ایچ آرا و کے مطابق اس وقت بلوچستان میں چودہ (20)ہزار سے زائد بلوچ لاپتہ ہیں ان میں ’’بوڑھے ، مرد ، عورتیں، جوان اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔اور صرف ان کا قصور یہ ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور اپنے قومی حقوق اور شناخت کیلئے آوازیں بلند کیئے ہوئے ہیں۔ آج ریاستی زندانوں میں قید ہیں اور اذیت برداشت کررہے ہیں۔آج اگر انسانی حقوق کے ادارے انسانیت کی باتیں کرتے ہیں یا انسانوں کی تحفظ کی باتیں کرتے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں پر اظہارِ تشویش کرتے ہیں اگر سچی میں بلوچوں کا درد ان کے دلوں میں ہے تو وہ پا کستانی حکومت پر زور دیں، کہ وہ اپنے قبضہ گیر فورس کو بلوچستان سے مکمل نکالیں۔ پھر بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کے گرنے کا جو سلسلہ ہے وہ خود بند ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ غیر فطری ریاست پاکستان نے بزرو طاقت اپنا قبضہ جمع رکھا ہے اور اسی قبضہ جمانے کی خاطر بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہے۔
میں بلوچ نوجوانوں کو سُرخ سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے قومی آزادی کی خاطر ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اور ریاستی ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی اذیتیں برداشت کررہے ہیں اور اپنے سَروں کی قربانی دیتے چلے آرہے ہیں ۔بلوچستان بھر سے اغواء کیئے جانے والے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اسیران نہ تو دہشت گرد ہیں اورنہ ہی مجرم ہیں بلکہ وہ بلوچ قوم کے حقیقی لیڈر یا کارکن ہیں جو قابض اور مقبوضہ کے درمیان جاری معرکہ آرائی کے دوران گرفتار ہونے والے جنگی قیدی ہیں اور عام سیاسی کارکن جو ریاستی فورس اور اسکا خفیہ ادارہ ISIکے لوگ براہ راست ان کے گھروں یا بازاروں اور راستوں سے اغواء کرکے اور بعد میں ان کے لاشوں کو ویرانوں یا گلی کوچوں میں پھینک دیتے ہیں۔
* بین الاقوامی انسانی حقوق کے علمبردار، بلوچ نسل کشی کا فی الفور نوٹس لیکر بلوچ اسیران کے حراستی قتل اور گزشتہ 70سالوں سے بلا روک و ٹوک جاری بلوچ نسل کشی قتل عام میں ملوث مجرموں ، پاکستانی فوج ، انٹیلی جنس ایجنسیز اور پاکستانی پارلیمنٹ کے سربراہان کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کرکے ان کے خلاف کاروائی کرے ۔ ‘‘
* اقو ام متحدہ کو چایئے کہ وہ بلوچ اسیران کے حراستی قتل اور بلوچ نسل کشی میں ملوث دہشت گرد ریاست پاکستان کی رکنیت فوری معطل کرکے عالمی امن و سلامتی کو تباہ کرنے والے ملک اور مذہبی انتہاء پسند ی کے سرغنہ پاکستانی ادارہ ISIکو دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر کرے اور (UN)کے چارٹر کے مطابق جاری بلوچ جدو جہد کی سیاسی و اخلاقی حمایت کا اعلان کرے۔