فلسطین کا غسان کنفانی
تحریر: واھگ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
آج اگر دنیا کے تاریخ کے پنوں کو پلٹا جائے تو ہمیں ارتقا کے اولین مرحلے سے لے کر آج تک ظالم اور مظلوم، آقا اور غلام، حاکم اور محکوم کے درمیان تضاد ہمیشہ ہی سے نظر آئے گا۔
تاریخ اِس بات کا نظیر ہے قوموں نے اپنی آزادی، امن اور خود ارادیت کو برقرار رکھنے کیلئے طاقتور سے نبرد آزما ہوئے۔ تاریخ کے پنوں میں مختلف نوعیت کے جنگوں کا ذکر ہے مثلاً مذہبی جنگ، قبائلی جنگ، قبضہ گیریت کے خلاف جنگ اور بہت سے لڑائی دیکھنے اور مطالعہ کرنے کو ملے گی لیکن سب سے زیادہ جو جنگ ہوئے، ان میں ہمیں قبضہ گیریا اپنی سرزمین پر قبضے کے خلاف جنگوں کی ایک طویل تاریخ ملتی ہے جو دھرتی کے باسیوں نے قبضہ گیر کو اپنے سر زمین سے بے دخل کرنے کے لئے کی تھیں جن میں، کینیا، ویتنام،الجرائر،کیوبا،گنی بساؤ، گھانا، چین، ہندوستان، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، تامل،ایران، افغانستان، روس، تیونس، کردستان، بلوچستان، فلسطین وغیرہ کی جدو جہد دنیا اور علم والوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
محققین اور دانشور قبضہ گیر اور مقامی باشندوں کے دائمی جنگ کو لیکر آج تک اُن وجوہات کو ڈھونڈنے میں کوشاں ہیں، جو اِس جنگ کو ایندھن اورتوانائی مہیا کر رہی ہیں۔ آج کے سکالر اِس طاقت سے حیرت زدہ ہیں جو مظلوم کے عزم و استقلال میں پنہاں ہے۔ در اصل اِس آسان اور پیچیدہ سوال کے امتزاج کا بنیادی جواب سرزمین کو اُن عظیم فرزندوں کے پاس ہے جو وطن کے مٹی کا قرض چکاتے ہوئے سروں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں۔
البرٹ میمی اپنی کتاب “کالونائزر اینڈ دی کالونائزڈ”میں لکھتے ہیں کہ قبضہ ایک تباہی ہے جو مقامی لوگوں کی تمام چیزوں کو اس طرح سے مٹا دیتاہے جس طرح کوئی بڑی قدرتی آفت تمام بنی ہوئی چیزوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے “۔
وطن کے سرفروشوں نے ان آفتوں سے اپنی سرزمین، زبان،ثقافت، ادب،مذہب اور اپنے اور اپنے لوگوں کے وجود کی بقا اور زندہ رکھنے کے لئے اپنی زندگی کی بازی لگا دی یا لگائی جارہی ہے۔ وطن کے اِن شہزادوں میں کینیا کے ڈیڈن کمتی، گنی بساؤ کے امیلکار کبیرال،گھانا کے نکرومہ،الجرائر کے فرانز فینن،کیوبا کے ڈاکٹر چی، کاسترو،چین کے ماؤزے تنگ،ہندوستان کے بھگت سنگھ،سکھ دیو،راج گرو،چندر،شیکر آزاد،فلسطین کے لیلہ خالد،محمود درویش،غسان کنفانی،بلوچستان کے شہید بالاچ مری، کمبر چاکر۔الیاس نذر،شہید ریحان جان،فدائی سلمان حمل،شہید ازل مری،بابا ھیر بخش مری،شہید میجر نورا پیرک، شہیدجنرل اسلم بلوچ سمیت ہزاروں گمنام شہید شامل ہے جنوں نے قبضہ گیر کے خلاف کے لڑ کر قربان ہونے کو ترجیح دی۔
وطن کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے والے ان کرداروں میں ایک عظیم کردار واجہ غسان کنفانی کی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کبھی اس نے بندوق سے گولی نہیں چلائی لیکن اس کی قلم کی نب سے نکلنے والا ہر لفظ بندوق کی نل سے نکلنے والے کارتوسوں سے زیادہ خطرناک تھی، جس نے اپنے قلم کی نوک کے ذریعے قبضہ گیر کے کردار کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا۔
غسان کنفانی،8 جولائی 1936 کو فلسطین کے شہر عکہ میں ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔اس کے والد فائز عبدالرزاق وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطین میں سیاسی طور پر متحرک تھے اور قومی سیاست کے دوران فائز عبدالرزاق کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا۔ والد کی سیاست نے بھی غسان کی زندگی پر بڑا اثر ڈالا کیونکہ کے وہ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں پر ہر وقت قوم و قومیت کے موضوع پر بحث ومباحثہ ہوتا تھے۔
غسان کے والدین نے اپنی جمع پونجی سے عکہ میں بڑا اور خوبصورت گھر تعمیر کروایا تاکہ آنے والی نسلیں ایک آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ غسان کے والدین نے سوچا کہ اب غسان اور اس کے باقی بہن اور بھائی اپنی باقی کی زندگی وہاں ہی گزاریں گے لیکن وہ گھر بھی قبضہ گیر کا نذر ہوگیا جس میں رہنے کے خواب غسان اور اس گھر والوں نے دیکھے تھے۔
غسان کنفانی نے اپنی ابتدائی تعلیم فرنچ کتھولک سکول جفہ سے حاصل کی۔ واجہ غسان کی عمر ابھی بارہ برس ہی کی تھی کہ اس نے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کو اپنے آنکھوں سے دیکھا۔اسی دوران اس بار ہ سالہ بچے کو باقی ہزاروں فلسطینیوں کے ساتھ اپنی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔ وہ اپنی سرزمین سے نکلنے کے بعد کبھی لبنان تو شام یا دمشق میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے لگا۔ غلامی کو غسان نے بچپن سے ہی اچھی طرح جان لیا تھا اور اپنے لوگوں کی شہادتوں،دربدر کی زندگی،غربت و افلاس،زمین سے دوری اور وطن کی محبت نے اسے مجبور کیا کہ وہ اس خونخوار جانور یعنی قبضہ گیر کا خاتمہ کریں جو غسان کنفانی سمیت لاکھوں فلسطینیوں کے زندگی کی بقاء کے لئے بہت ضروری تھا۔
غسان کنفانی نے اپنی سیکنڈری تعلیم نیشنل ریلیف اینڈ ورک ایجنسی کی مدد سے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد غسان کنفانی نے 1200 سو فلسطینی بچوں کو پناہ گزین کیمپوں میں پڑھانا شروع کردیا اور اپنے سرزمین اور اس کے اوپر ہونے والے ظلم وبربریت اور غلامی سے اپنے بچوں کو آشناکروایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1000 سے زیادہ طالب علموں نے مزاحمت کی راہ کو چنا اور غلامی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ جس میں ان عظیم شاگردوں کے ساتھ عظیم استاد بھی شامل تھا.
1956 میں کنفانی کویت چلے گئے اور وہاں کچھ وقت پڑھنے کے بعد زیادہ تر وقت مختلف ادب کو پڑھ کر خود کو نفسیاتی حوالے سے مظبوط کیا اوراسی سال ایک اخبار (opinion) کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا جو کہ موومنٹ آف دی عرب نیشنلسٹ (MAN) سے منسوب تھی۔1960 میں واپس بیروت چلے گئے جہاں پر (MAN) موومنٹ اف دی عرب نیشنلسٹ کے اخبار(Al Hurriya) میں ایڈیٹر کے طور پر کام کیا اور فلسطین کے مسائل کو دنیا کے سامنے لائے۔ 1962 میں غسان کنفانی کے خلاف بہت سی کاروائیاں کی گئی جس کی وجہِ سے اس کو تھوڑے عرصے کے لئے اپنے آپ کو مکمل روپوش کرنا پڑا۔
اس کے بعد انہوں نے بیروت میں ایک اور اخبار(The Liberator) کے لئے کام کیا۔ اس دوران کنفانی نے بہت سے اخبارات میں کام کیا اور فلسطین کے مسئلے کو عام کر کے ہر شخص تک سر کیا تھا جس کو غسان اپنا قومی فرض سمجھاتا تھا یہ تمام اخبارات جن میں غسان کنفانی نے کام کیا وہ فلسطین کی آزادی کے لئے لکھ رہے تھے۔
کنفانی فلسطین کے ایک ایسے لکھاری تھے جس نے اپنے قلم کے ذریعے فلسطین کے علاوہ باقی دنیا کو بہت متاثر کیا جسے آج کی دنیاایک لکھاری، جرنلسٹ، مزاحمت کار کے نام سے جانتی ہیں جو دنیا میں آج بھی قبضہ کے خلاف جنگ میں مزاحمت کی علامت ہے۔
1969 میں انہوں نے (Al Hadaff) نامی ایک اخبار میں کام کرنے شروع کر دیا اور اپنی شہادت تک اس سے منسلک رہے۔ غسان کنفانی فلسطین کے بہت ہی مشہور و معروف مصنف کے طور پر جانے جاتے ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں اور مضامین لکھے جن کا موضوع فلسطین اور اس کے لوگ اور غلامی تھی۔
غسان کنفانی کے چند مشہور کتابیں جن میں
Men in the sun (1962)
All that left for you(1966)
Umaah Sadh (1969)
Return to Haifa(1970) شامل ہیں۔
غسان کنفانی جب پاپولر فرنٹ کے ترجمان تھے تو انہوں صحافی کو انٹرویو دیا جو کہ کنفانی کی ایک مشہور بات چیت ہے۔
صحافی کی انقلابی رہنما غسان کنفانی سے گفتگو
(یہ پاپولر فرنٹ ہی تھا جس نے اردن کے صحرائی‘ریولوشنری’ہوائی اڈے سے تین جیٹ طیارے ہائی جیک کر نے کے بعد تباہ کردی۔ اور یہ پاپولرفرنٹ ہی تھا جس نے قاہرہ میں پین امریکن جمبو طیارے کو ڈائنامائیٹ سے تباہ کردیا۔ بیروت میں پاپولر فرنٹ کے لیڈر غسان کنفانی ہیں۔ وہ فلسطین میں پیدا ہوئے تھے مگر 1948 میں یہاں آگئے جسے وہ ”صیہونی دہشت گردی سے آزادی“ کہتے ہیں۔ تب سے وہ صیہونی یہودیوں کی تباہی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں)۔
غسان کنفانی: میں جانتا ہوں کہ دنیا کی تاریخ ہمیشہ کمزور لوگوں کی طاقتور لوگوں سے لڑائی کی تاریخ رہی ہے۔ کمزور لوگ جن کا مطالبہ درست ہوتا ہے اور طاقتور لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پران کا استحصال کرتے ہیں۔
صحافی: آپ دوبارہ جنگ کی بات کرتے ہیں جو کہ کئی ہفتوں سے اردن میں جاری ہے جس میں آپ کی تنظیم بھی ایک طرح سے شامل ہے، آخر اس سب کا حاصل کیا ہے؟
غسان کنفانی: ایک چیز، کہ ہمارے پاس لڑنے کے لئے ایک مقدمہ ہے۔ فلسطینی لوگ اس جنگ کو لڑتے ہوئے مرنا پسند کریں گے بجائے اس کے کہ اس جنگ کو ہار جائیں۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اردن کا شاہ غلط ہے۔اور ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ فلسطینی لوگ تب تک لڑتے رہیں گے جب تک انہیں حق نہیں مل جاتا۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے یہ حاصل کیا ہے کہ ہم نے دنیا کے سارے انسانوں کو بتادیا ہے کہ ہم ایک چھوٹی سی بہادر قوم ہیں جو انصاف حاصل کرنے کے لئے اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑے گی۔ وہ انصاف جو دنیا ہمیں فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
صحافی: ایسا لگتا ہے کہ یہ خانہ جنگی بے نتیجہ رہی ہے؟
غسان کنفانی:۔ یہ خانہ جنگی نہیں! یہ ایک عوام کی اپنے دفاع کے حق میں فاشسٹ حکومت کے خلاف جدوجہد ہے۔ جس کا آپ دفاع کر رہے ہو، صرف اس لیے کہ شاہ حسین کے پاس ایک عرب پاسپورٹ ہے۔
صحافی:۔ یہ تنازعہ ہے۔
غسان کنفانی:۔ یہ تنازعہ بھی نہیں۔ آزادی کی تحریک ہے جو انصاف کے لئے لڑی جا رہی ہے۔
صحافی:۔ ٹھیک ہے! جو بھی اسے مناسب کہا جاسکتا ہے۔
غسان کنفانی:۔ یہ ”جو بھی“ بھی نہیں۔ کیونکہ یہیں سے ہی مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی وجہ ہے کہ آپ ان سب سوالوں کو پوچھتے ہیں تب مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ لوگوں کی ان کے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد ہے ایسے لوگ جن کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے۔ اگر آپ اسے خانہ جنگی کہتے ہیں تو آپ کے سوالات جائز ہو جا ئیں گے۔ اگر آپ اسے تنازعہ کہتے ہیں تو یقینا یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہو کیا رہا ہے۔
صحافی:۔ آپ کی تنظیم اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں کیوں شامل نہیں ہوتی؟
غسان کنفانی:۔ آپ کا مطلب امن مذاکرات نہیں ہیں! آپ کا مطلب اسرائیلی اطاعت قبول کرنا اور ہتھیار ڈالنا ہے۔
صحافی:۔ صرف بات کیوں نہیں کرتے؟
غسان کنفانی:۔ کس سے بات کریں؟
صحافی:۔ اسرائیلی رہنماؤں سے بات کریں۔
غسان کنفانی۔: اس طرح کی گفتگو تلوار اور گردن کے مابین گفتگو کی طرح ہوگی۔
صحافی:۔ اگر کمرے میں تلواریں اور بندوقیں نہ ہوں تو آپ تب بھی بات کرسکتے ہیں۔
غسان کنفانی:۔ نہیں، میں نے کالونیسٹ کیس اور قومی آزادی کی تحریک کے مابین کوئی بات چیت نہیں دیکھی ہے۔
صحافی: لیکن، اس کے باوجود آپ بات کیوں نہیں کرتے؟
غسان کنفانی: کس کے بارے میں بات کریں؟
صحافی:۔ لڑائی نہ کرنے کے امکان کے بارے میں بات کریں۔
غسان کنفانی: کس کے لئے نہ لڑیں؟
صحافی: کسی بھی چیز کے لئے، چاہے جو مرضی ہوجا؟
غسان کنفانی: نوجوان عام طور پر کسی مقصد کے لئے لڑتے ہیں۔ اور وہ کسی مقصد کے لئے ہی لڑنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا، آپ مجھے نہیں بتا سکتے کہ ہمیں بولنا بھی کیوں چاہئے۔ اور کس کے بارے میں بات کریں؟
صحافی: لڑائی بند کرنے کے بارے میں بات کریں۔ اموات، مصائب اور تباہی کو روکنے کے لئے بات کریں۔
غسان کنفانی: کس کی تکلیف، تباہی اور درد؟
صحافی: اسرائیلیوں کی، فلسطینیوں کی اور عربوں کی۔
غسان کنفانی: بیس سال سے مارے جانے والی فلسطینی لوگ جنہیں نکالا گیا، کیمپوں میں پھینک دیئے گئے ہیں، فاقہ کشی میں رہ رہے ہیں۔ اور یہاں تک کہ فلسطین کا نام استعمال کرنے سے بھی منع کیا گیا۔
صحافی: اس طرح رہنا مرجانے سے تو بہتر ہے۔
غسان کنفانی: شاید آپ کے لئے بہتر ہو مگر ہمارے لئے نہیں۔ ہمارے لئے اپنے ملک کو آزاد کرانا، وقار رکھنا، احترام کرنا، انسانی حقوق حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ زندگی۔
صحافی: آپ نے بادشاہ حسین کو ایک فاشسٹ کہا۔ عرب رہنماؤں میں سے کون ہے جو آپ کے بالکل مخالف ہیں۔
غسان کنفانی: ہم عرب حکومتوں کو دو طرح کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ 1۔ رجعت پسند، جو مکمل طور پر سامراجیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے کنگ حسین، سعودی حکومت، مراکشی حکومت، تیونسی حکومت۔ 2۔ اور دوسرے مڈل کلاس فوجی ممالک جیسا کہ شام، مصر، عراق اور الجیریا۔
صحافی: کیا آپ ماضی کے بارے میں یہ سوچتے ہیں کہ طیارے ہائی جیک کرنا ایک غلطی تھی؟
غسان کنفانی: طیارے ہائی جیک کرنا ایک غلطی نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو ہمارا سب سے صحیح کام تھا۔
غسان کنفانی جب 24سال کے تھے تو انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ مجھے عجیب قسم کے خیالات آتے ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کسی دن میں سڑک کے کنارے میری لاش پڑی ہوئی ملے گی اور حقیقت میں کنفانی کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا کیونکہ ایک انقلابی آنے والے واقعات کے بارے میں پہلے سے ہی پیشنگوئی کر دیتا ہے۔
غسان کنفانی کی زندگی کے آخری ایام میں اسی کی سیاسی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئی کیونکہ کہ ایک انقلابی کو معلوم ہوتا ہے کہ صرف جہدوجہد اور مزاحمت میں تیزی ہی دشمن کی شکست کی وجہ بن سکتی ہے۔ اُن کی سرگرمیوں سے قبضہ گیر کو بہت زیادہ خوف لاحق ہوا اور اُن کو ختم کرنے کے لئے بہت سی کوششیں کی گی بالا آخر غسان کنفانی کو 8 جولائی 1972 کو اسرائیلی ایجنسی موساد نے لبنان کے مرکزی شہر بیروت میں بم حملے میں شہید کردیا۔ جس کی میت بیروت میں سڑک کے کنارے پر ملی۔
قبضہ گیر ہمیشہ یہیں سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی جان کو مار کر اُن کی نظریات کو قتل کر دیتے ہیں لیکن یہ اُن کی بھول ہوتی ہے کہ کسی کو شہید کرنے سے یا لاپتہ کرنے سے وہ قوم کے فرزندوں کو جہد آزادی کی تحریک سے دستبردار کرسکتے ہیں کیونکہ وہ ہزاروں انسانوں کو قتل کر سکتے ہیں لیکن اُس نظریے کو نہیں جس پر وہ کاربند ہیں۔
یہاں مجھے شہید قندیل صبا دشتیاری کی بات یاد آتی ہے جہاں پہ وہ کہتے ہے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ کسی کو شہید کرنے یا لاپتہ کرنے سے بلوچ قوم کو آزادی جیسی عظیم منزل سے دور رکھ سکتا ہے بقول شہیدکہ جب ایک بلوچ کو شہید کی جاتاہے تو پاکستان کی دیوار کا چھوٹا سے ٹکرا گر جاتا ہے کیونکہ یہی شہادت ہی قوم کو اسی کی منزل کے قریب کرتا ہے۔
آج بھی فلسطین کا کنفانی اور کنفانی کا فلسطین ایسے سرمچاروں سے بھری پڑی ہے جو غسان کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں