سنگت ثناء ایک عہد ساز شخصیت:تحریر دوستین کھوسہ

311

 

چی گویرا ، فیڈل کاسترو ، عمر مختیار ، لیلیٰ خالد تو صرف چند ایک مثالیں ہیں،بلوچ سرزمین کا ہر انقلابی اپنے آپ میں ایک مکمل داستان ہے۔اس گلزمین کے بے شمار جاں نثاروں میں ایک گواڑخ شہید سنگت ثناء ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک تحریک تھے، اپنے آپ میں ایک انقلاب تھے قوم کے لیے ان کی بے بہا قربانیاں ہر فرد پر قرض ہیں۔

شہید واجہ سنگت ثناء بلوچ تقریباً آج سے دس برس پہلے شہدائے کوہ سلیمان دن کے موقع پر جب ڈیرہ غازیخان تونسہ آئے تو وہ ایک پیغام ، ایک سوچ اور ایک فکر لے کر آئے تھے۔ ان کا مقصد بلوچ قوم کو یکجاء کرنا تھا تاکہ وہ متحد ہوکر مشترکہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ وہ دشمن جو کہ ہماری نسل کشی میں مصروف ہے جس نے ہمارے ہزاروں نوجوان شہید کیے ، ہزاروں کو لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں۔ وہ دشمن جو کبھی ہمیں اجتماعی قبریں دیتا ہے تو کبھی ہماری عورتوں بچوں تک کو شہید کرتا ہے۔ وہ دشمن جو ہمارے ہر قسم کے وسائل لوٹ رہا ہے اور ہمارے ساحل پر قبضہ گیر ہے۔ وہ اتنا غیر مہذب اور سفاک ہے کہ ہمارے مرد تو مرد خواتین کے جنازے تک بھی ان کے آباء کی رضا سے نہیں ہونے دیتا۔ اس کا نشانہ ہر وہ بلوچ ہے جو فکر رکھتا ہو ، سوچ رکھتا ہو ، مزاحمت کی لگن رکھتا ہو، ایک مقصد پر یقین رکھے ، جو حق حاکمیت کی بات کرتا ہو ، جو ساحل اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف بات کرتا ہو ، اور جو آزادی کا حق مانگے اس ورنا کو مسخ کرکے، شہید کرکے پھینکتا ہے۔

سنگت ثناء نے ڈیرہ غازی خان کے بلوچ عوام کو پیغام دیا کہ بلوچ ایک ہے ، اس کا خون ایک ہے، اس کا درد ایک ہے ،اس درد کی دوا ایک ہے۔ چاہے اس پر ایران کا قبضہ ہو ، چاہے اس پر پاکستان کا قبضہ ہو، چاہے پنجاب کا۔ انہوں نے اس موقع پر واضح کہا کہ ‏پاکستان نےپہلے بھی ہمارےبہت سے لوگوں کو شہید کیا ہے۔ یہ جب خان آف قلات آغا عبدالکریم خان بلوچ کو شہید کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بلوچ مزاحمت اب ختم ہوگئی ہے۔ لیکن آغا عبدالکریم خان بلوچ کی شکل میں بوڑھا باغی نواب اکبر خان بگٹی کی شکل میں سامنے ہوتا ہے۔

میر صفر خان بلوچ کو شہید کرتے ہیں تو پھر سمجھتے ہیں کہ بلوچ مزاحمت اب ختم ہوگئی لیکن میر صفر خان شہید کے تیس سال بعد ان ایسے ہی خوبصورت نوجوان سردار میر بالاچ مری سامنے ہوتے ہیں۔

جب شہید مجید گلزمین پر فدا ہوئے تو پھر انکا خیال تھا کہ بلوچ مزاحمت اب اختتام پذیر ہوا لیکن مجید بلوچ کے تیس سال بعد فدائی درویش مری ، فدائی ریحان فدائی حمل اور کئی دیگر نے بلوچ وطن پہ خود کو ہنستے ہوۓ قربان کیا۔ ‏ سنگت ثناء نے ڈیرہ غازیخان کو کہا “میں یہ کہتا ہو کہ بلوچ کی ماں آج بھی بانج نہیں ہے وہ ایسے بیٹوں کو جنم دے گی جو اپنے مادر وطن پہ قربان ہونے کےلئے تیار ہونگے اسکا دفاع کرینگے”

یہ شہید سنگت ثناء بلوچ کے تاریخی الفاظ تھے۔ انہوں نے کہا
جب ڈیرہ بگٹی کے بزرگ نواب کو شہید کیا جاتا ہے تو مکران سے لے کر تونسہ شریف تک ہر بلوچ تڑپ جاتا ہے ۔ چاہے بلوچ کو تقسیم کر کے تین ملکوں میں رکھا گیا، مختلف صوبوں میں رکھا گیا ہے پھر بھی وہ اس کا درد محسوس کرتے ہیں۔ سنگت ثناء نے شہیداء کوہ سلیمان دوست محمد بزدار اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے ایوب دور میں بغاوت کی اور زندگی کی بجائے موت کو ترجیح دی مگر اپنی مٹی کا سودا نہیں کیا۔

سنگت ثناء نے اس موقع پر ایک امید اور خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انشاللہ اس سرزمین ڈیرہ غازی خان سے ایک دن گوریلا کمانڈر پیدا ہونگے۔ ‏

جنگ ایک مقصد کے لیے ہوتی ہے،اور ہمارا مقصدقومی آزادی ہے.
سنگت ثناء تو شہید ہوگیے مگر آج سنگت کی فکر اور سوچ اور قوم کے لیے دی گئی لازوال قربانی ڈیرہ غازی خان میں زندہ ہے۔ وہ میرے جیسے سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کی شکل میں زندہ ہے اور بڑھ رہی ہے جسے دشمن کبھی نہیں مٹا سکتا۔ سنگت ثناء بلوچ تاریخ میں ہمشہ زندہ رہے گا اور ڈیرہ غازی خان ان کا ہمیشہ قرض دار رہے گا اور سنگت ثناء کا کاروان جاری و ساری رہے گا۔
‏نی آزادی نا دیوانہ ،،
ثناء سنگت ثناء سنگت


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں