پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کے سامنے بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کے تحصیل میر پور کے رہائشی خیر النساء کا کہنا ہے کہ جھل مگسی میں نوابزادہ خالد مگسی نے ہمارے زمینوں پر قبضہ کرکے میرے والد پر جھوٹے مقدمات بنائے اور مجھے ایک سال تک اپنے قید میں رکھا۔
انہوں نے کہا کہ جب میرے والد نے اپنے زمینوں پہ نواب خالد مگسی کا ناجائز قبضہ چھڑانے کے لئے عدالت سے رجوع کیا تھا، تو انہوں نے مجھے اغواء کرکے اپنے قید میں رکھا۔
سوشل میڈیا میں ایک وائرل وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خیرالنساء، اسکی بہن اور انکے ہمراہ دیگر عورتین سراپا احتجاج ہیں اور اعلیٰ حکام سے انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
خیرالنساء کے مطابق جب ہمارے زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو میرے والد نے عدالت میں کیس دائر کیا اور ہمارے زمین واپس کیے گئے۔ انہوں نے کہا جب ہم اپنے زمینوں پر دوبارہ گئے تو خالد مگسی اور نادر مگسی نے ہمیں ڈرا اور میرے والد اور بھائی پر حملہ کرکے انکو زخمی کردیا اور مجھے اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے اور تشدد کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ پھر میرے والد نے ہائی کورٹ بلوچستان میں دوبارہ کیس داخل کردیا اور ایک سال بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد خالد مگسی نے قتل کے جھوٹے الزام میں میرے والد کو ایف آئی آر میں نامزد کردیا، ان کے مطابق جس قتل میں میرے والد کو نامزد کیا گیا ہے اس وقت میرے والد سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم گذشتہ تین روز سے اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں کہ میری اغواء میں ملوث خالد مگسی اور دیگر کے خلاف قانونی کاروائی کرکے ہمیں انصاف دی جائے.
اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر
#JusticeForKhairUlNisa
ہیش ٹیگ پر صارفین حکومت اور سیکورٹی اداروں سے خیرالنساء اور اسکے فیملی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے نوابزادہ خالد مگسی کے خلاف کاروائی کا مطالبے کررہے ہیں۔
طالب علم امتیاز بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر لکھا کہ ایسے لوٹے سرداروں اور نوابوں کو ریاست نے ہمیشہ اپنی جعلی اسمبلیوں کے ذریعے طاقتور بنایا ہے تاکہ وہ بلوچ عوام پر ظلم کرنے میں ریاست کے ہم دست ہو۔
ایک اور نوجوان نے لکھا کہ ہم شروع سے کہتے رہے ہیں کہ بلوچ سماج میں عورت دوہری جبر کا شکار ہے۔ ایک سیاسی کارکنوں کی صورت میں ریاست کے ہاتھ اور ایک جمالی خاندان جیسے وحشی سرداروں کے ہاتھوں جبر کا نشانہ بنتی ہیں۔