ظلم کے خلاف اِس جنگ میں ہم خود کس مقام پر کھڑے ہیں ؟
تحریر: خالدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم بخوبی واقفیت رکھتی ہے کہ شہید بانک کریمہ بلوچ ان کے لئے ایک بہت بڑا پہاڑ تھیں ، جو اپنی قوم کو سیاسی شعور سے ہمکنار کرنے کی بھرپور کوشش کرتی رہی، بالخصوص بلوچ خواتین جنہیں نوآبادیاتی نفسیات نے اُنکے گھر تک محدود رکھا یہاں تک کہ انہیں تعلیمی اداروں تک رسائی سے روکا گیا ، جبکہ ایسے سخت معاشروں میں وہ ایک طرف اس نفسیات کے خلاف لڑتی رہی ، بیشتر مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود بلوچ خواتین کو چار دیواری سے نکالنے و سیاست کی میدان تک پہنچانے میں فعال رہی تو دوسری جانب اپنے قوم کے ساتھ ہونے والے ہرطرح کی ظلم کے خلاف گرجتی آواز بھی بنی رہی۔
بلوچ قوم کی تاریخ میں اُن کا سیاسی اور فعال کردار اپنے آپ میں ہی ایک مثال ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، ہم اُس کردار کو الفاظ کی موتیوں میں سمیٹ کر بیاں نہیں کرپائیں گے اور نہ ہماری یہ کوشش کبھی کامیاب ہوگی ، ہم یہ حق چاہ کر بھی ادا نہیں کرسکیں گے ۔وہ کردار جو اپنے ہی سرزمین کے اونچے چٹانوں جیسے مضبوط تھی ۔ انسان کی سب سے بڑی بہادری سچ کی راہ پر اپنوں کو قربان ہوتے ہوئے دیکھنے کا حوصلہ ہے ، یہ حوصلہ ان کے کردار میں واضح رہی ورنہ بات جب اپنوں کے قربان ہونے پر آتی ہے تب بیشتر لوگ حوصلے ہار بیٹھتے ہیں ، ٹوٹ جاتے ہیں بکھر جاتے ہیں ، ہمت کھو بیٹھتے ہیں اور خاموشی اختیار کرجاتے ہیں ۔ بیدادگر اپنوں سے محبت میں اِس کمزوری کو بھی ہتھیار کے طور پر خوب استعمال میں لاتے ہیں۔ سرخ سلام اُس وطن زادی کو جسے توڑنے کی نیت سے ہزار حربے استعمال کئے گئے مگر وہ پھر بھی ڈٹی رہی اور ستمگروں کے منہ پر ہار کا چاٹا مارتی رہی ۔
شہید بانک کریمہ کینیڈا میں ایک پناہ گزین کے طور پر رہائش پذیر تھیں جو اپنے گُلزمیں سے جلاوطن تھی ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر وہ جلاوطن کیوں تھیں ؟ کن اسباب نے انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا ؟ اُن کا کردار کیا تھا ؟ اُن کی سرگرمیاں کیا تھیں ؟
مذکورہ بالا بانک کریمہ ایک سیاسی سرگرم رکن تھی جس نے اپنے سیاست کا آغاز قومی طلباء تنظیموں سے کی ،ایسی تنظیمیں جن کا بنیادی مقصد اپنے قوم کو سیاسی شعور سے ہمکنار کرنا ہے ، اُن کے ساتھ اپنائے گئے بدترین رویوں کے پُشت اُن اسباب و وجوہات کو فاش کرنا ہے ، جن کی بنیاد اُنہیں ہر قدم پر ناانصافیوں ، زیادتی ، ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ المختصر اپنے قوم کو منظم کرکے اپنے بقاء کی تحفظ ، اپنے ساتھ ہونے والے ذیادتیوں کے خلاف مستحکم طریقے سے فعال رہنے کا حصول ہے ۔اپنے قوم سے منسلک تعمیراتی و دیگر ہرطرح کی سرگرمیوں کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر بانک کریمہ بلوچ سامنے اُبھریں جبکہ یہیں قومی فریضہ اُن کے کردار کا عکاسی ہے ۔
ملک بدر ہونے کے پیچھے اُن کے قومی کردار نے ہی بڑا کردار نبھایا وہ اِس لئے کہ اُن کا کردار ہی یہاں کے مزاحمت دشمن بیشتر اداروں کو چُبھتا رہا۔ اپنے خلاف اِس مذاحمت یافتہ کردار کو مٹانے کے لئے دشمن عناصر نے اُنہیں ہرطرح سے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ، اُن کے اپنوں کو تکلیف دیکر اُسے کمزور کرنے کے حربے استعمال کئے مگر ناکام رہے۔ سوچتی ہوں کس قدر وہ شہید نڈر اور فکری و نظریاتی حوالے سے مستحکم ہوگی جس نے مجبوری حالت میں وطن چھوڑنے کا تصفیہ تو کرلیا مگر اپنے فکر و کردار سے دستبرداری منظور نہیں کی۔ بیرونِ ملک بھی وہ اپنا قومی فریضہ سرانجام دیتی رہی اور اپنے قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی رہی۔
بانک کریمہ کے کردار سے خائف عناصر کے لیے ان کے کردار کا وجود ہی بہت بڑی فکرمندی تھی پھر چاہے وہ کردار اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک ، اسے ہر کہیں سے ختم کرنے کی کاوشیں ہونی تھی ۔ اور آج وہ اپنے کردار کی وجہ سے ہمارے بیچ نہیں رہی ۔ دشمن عناصر نے انہیں جسمانی شکست دیکر اپنے جیت کی خوشی ضرور منائی ہوگی ، جبکہ یہ جیت اُن کے زاویہ نگاہ سے مکمل بھی ہے کہ کردار جسم کے ساتھ ہی دم توڑ گئی ۔ مگر یہ اُن کا زاویہ نگاہ ہے جو ناپختگی پر مبنی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محض جسم مرتے ہیں ، اُن کے کردار کی پیروکار مزید ابھرتے ہیں اور یہی دشمن کی ہار ہے۔
سوال یہ ہیکہ ظلم کے خلاف اِس جنگ میں ہم خود کس مقام پر کھڑے ہیں ؟ کس حد تک فعال ہیں ؟ آج خود کو بانک کریمہ پکارنے کا ہمارا یہ نعرہ کس حد تک جائز ہے ؟ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے شاید ہمیں خود کو بانک کریمہ پُکارنے کی جسارت ہرگز نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ ایک کردار تھی جبکہ ہم اُس کردار کا چھوٹا سا حصہ بھی نہیں ہیں ۔ نہ ہمیں اِس جنگل نما ریاست سے مذید انصاف طلب کرنے جیسے نعرے لگا کر خود کو فریب دینا ہے ، ایک ایسی ریاست جہاں نہتے بےگناہ مظلوموں کے قاتل سرعام بےخوف آذاد گھومتے ہیں مگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے کبھی عقوبت خانوں کی زینت بنتے ہیں تو کبھی ملک بدر ہونے پر مجبور کئے جاتے ہیں ۔
بلوچ قوم اگر چاہتی ہے کہ بانک کریمہ کو انصاف ملے تو اُن کے کردار کو زندہ رکھنے کی مستقل جدوجہد کرے ، وہ کردار جو اپنے ذات سے بَری تھی ، وہ کردار جو محض اپنے قوم کے لئے تھی ۔ تب بالکل کسی حد تک ہم خود کو کریمہ کہہ کر مطمئن ہوسکیں گے۔ مگر اِس کردار کو اپنانا بھی کیا کوئی چائلڈز پِلے ہے ؟ نہیں _ یہ وہ کردار ہے جسے اپنانے کے لئے بہت بڑی ہمت چاہئے جو ہرفرد میں ہو ضروری نہیں ۔ ہاں لیکن اِس فقدان پر ہی بات ختم نہیں ہوتی ۔ گر یہ ہمت کسی میں نہیں ہے تو اُسے پیدا کرنا ہوگا ۔ چونکہ آپ ظلم کے خلاف آواز بنیں گے ، اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے تو ساجد حسین ، بانک کریمہ کے جیسے مارے جائیں گے (جہاں آپ کی موت کو نو کریمینل ڈیتھ یا کوئی حادثہ قرار دیا جائیگا) اور اگر لب بستگی اختیار کرینگے تو شہید ملکناز ، کلثوم ، حیات مرزا کے جیسے مارے جائیں گے ۔حقوق کی اِس جنگ میں بالخصوص وہ ایک مخلوق محفوظ ہے جو مزاحمت دشمن عناصر کے ہاتھوں ضمیر و ایمان کا سودا کرچکا ہے، دیگر بولنے یا چپ رہنے والوں کو ضرور اِس آگ سے ہوکر گزرنا ہے۔ مظالم کے خلاف چپی برت کر خود کو تحفظ دینے کا فریبی خیال بلوچ قوم کو اب پیچھے چھوڑ دینا ہوگا ورنہ آج کی خاموشی، غیرفعالی اور اپنے قومی ذمہ داریوں سے بےاعتنائی و دستبرداری کل ہمارے لئے رونا بن جائے گا ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں