آخری راستہ – ریکی بلوچ

500

آخری راستہ

تحریر: ریکی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جو سمجھنا تھا دشمن سمجھ چکا ہے۔ دشمن اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ بلوچ سوائے آزادی کے کوئی اور بات ماننے کو تیار نہیں۔ اگرچہ کچھ اپنے تاریخ سے نابلد لوگ ہی سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ جو دشمن سے مذہبی جذبات کی بنیاد پر خیر و خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے یا جان بوجھ کر انجان بنے ہیں کہ انہی مسلمانوں نے آغا عبدالکریم اور بابو نوروز خان کو قران کا واسطہ دیکر پہاڑوں سے اتارا اور قران پہ کیئے گئے وعدے سے مکر گئے، انہیں زندانوں میں ڈال دیا گیا، تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پاؤں سے معذور لونگ خان کو مسجد کے سامنے شہید کیا گیا۔ سینکڑوں عصمتیں لوٹی گئی۔ اس سے کئی گنا زیادہ ظلم دیکھنے کے باوجود بلی اور کبوتر کی آنکھ مچولی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کو عافیت سمجھتے ہیں اور قران کی آیت وتواصوبالحقءِ کو چھوڑ کر وتواصوبالصبر کا درس دیا کرتے ہیں۔ شاید ان کے ہاں حق بات کچھ زیادہ ہی کھٹن ہے۔ شاید وہ یہ بھی جانتے ہیں، قران پر معاہدہ کرنے والوں کو نہیں بخشا گیا تو پڑھنے پڑھانےوالوں کو کیسے بخشا جائیگا۔

کچھ لوگ ظلم کا اعتراف کرتے ہوئے مذمت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ موجودہ حالات اپنی کمزوری اور خوف کو جائز قرار دینے کی کوششوں میں دن رات لاپتہ اور مسخ شدہ لاشوں کا ذکر کرکے مختلف قسم کے جواز تراشتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو بھی خوفزدہ اور خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ موجودہ مظالم پر لب کشائی کے بجائے خاموشی کی تبلیغ کرتے ہیں۔

ہمارے پارلیمنٹ پرست جو تمام حالات و واقعات سے باخبر ہونے کے باوجود دشمن سے مراعات کے حصول میں منہ پر تالہ لگائے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھگی کینچھی ہے، تو کسی نے رسی اور کسی نے مونچھیں منڈوا دیئے ہیں۔ بہرحال واقعات و حالات کی نوعیت اور معروضی حقائق سے یہی ثابت ہورہا ہے کہ یہ بازی پارلیمنٹ پرستوں کے ہاتھوں سے نکل کر بلوچ قوم کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ سیاستدانوں کے پاس ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کےلیئے الزام تراشیوں اوربیان بازیوں کے سوا کچھ نہیں۔

دشمن کا ایجنڈا “ملک غدار” کی پالیسی پر مبنی ہے گو کہ یہ لیبل پرانا ہوچکا ہے، اب اسکے ساتھ ساتھ را ایجنٹ (انڈین ایجنٹ) کا فارمولا استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اس قسم کے القابات روز اول سے دشمنوں کی طرف سے آزادی پسندوں کو ملتی رہی ہے۔ جو جیسا خود ہوگا ویسا ہی دوسروں کو سمجھے گا، انگریزوں کے میزبان بن کر انکی خدمات بجالانے کے صلے میں انہیں یہ کالونی نما ملک بناکر دیا گیا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ اپنے لیئے نئے قبلے کی تلاش میں لگ گئے۔ روس سے دوستیاں نبھائی گئیں۔ بھٹو کو ایران جیسا بلوچ دشمن اتحادی میسر آیا تو بلوچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔بعد ازاں امریکہ اور اب چین جیسے سامراج کے ساتھ مل کر بلوچ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ مگر ہمارا ایمان آزادی اور دشمن کی تباہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں