فلسفہ شہادت – ودار بلوچ

158

فلسفہ شہادت

تحریر: ودار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ فرزندوں نے ہمیشہ تاریکی کو ٹھکرا کر روشنی کو ترجیح دیا ہے ہر طاقتور سامراج و نو آبادیاتی نظام کیخلاف مزاحمت کی ہے اور اپنی زمین و وسائل کی حفاظت کی ہے، آئندہ نسلوں کو غلامی کی ذلت سے بچانے کیلئے اس پرخار راہ کو چنا ہے انسانیت و قومی بقاء کیلئے اپنا فرض خون دے کر چکایا ہے کسی بھی تکلیف اور خوف کی پرواہ کئے بغیر اس راہ پر رواں دواں ہیں۔

آج بھی بلوچ فرزند ماضی سے کئی گنا زیادہ قابض ریاست کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں مزاحمت کر رہے ہیں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اپنی ساحل وسائل کی حفاظت کیلئے دشمن اور بلوچ قوم کی نسل کشی کیخلاف استعمال ہونے والی مشینری پر ایسا وار کر رہے ہیں جہاں دشمن کی سوچ سے بالاتر ہے۔

بلوچستان کی سرزمین پر بہتے لہو سے ہر بلوچ کے لہو میں یہ ولولہ ابھرا ہے جو اس سرزمین پر کسی بھی حالات پر اپنے وطن کی آزادی کیلئے سرگرم ہیں اور دشمن کی طاق میں بیٹھے ہیں اور اپنے باری کا انتظار کر رہے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شہادت ہم پر فرض ہے ہم مریں گے یا ماریں گے لیکن یہ غلامی ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہم اپنے وطن و قوم کو اس ذلت بھری زندگی سے نجات دلائیں گے۔

یہ قربانی کا فلسفہ ہے اس فلسفے کو جاری رہنا ہے اس کیلئے شعوری طور پر نوجوان بیدار ہو رہے ہیں جس طرح قبضہ گیر اپنی جارحیت میں اضافہ کر رہا ہے بلوچ کی زمین کو سیل کرکے چائنہ کو دے رہا ہے مقامی لوگوں کی زندگی کا گھیرا تنگ کر رہا ہے تاکہ وہ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائیں، بلوچستان کے گاؤں پر اپنے فضائی طاقت سے شیلنگ کر رہا ہے خواتین و بچوں کو لاپتہ کر رہا ہے نہتے بلوچ فرزندوں کو بے دردی سے شہید کر رہا ہے، بلوچ نسل کش مشینری کو تیزی کے ساتھ استعمال عمل میں لا رہا ہے اسی طرح بلوچ تحریک مذید منظم ہوتا جا رہا ہے نوجوانوں میں شعور تیزی سے برپا ہو رہا ہے اور وہ مزاحمت کی راہ اختیار کر رہے ہیں دشمن کیخلاف کمر بستہ ہیں۔

اس سفر میں ہمارے بہت سے بلوچ وطن کے سپاہیوں نے اپنا قرض ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے اور اس تحریک کے بہت سے رہنماؤں نے قوم کی رہنمائی کرتے کرتے اور اپنا فرض نبھاتے ہوئے خود کو اس دھرتی پہ قربان کر دیا ہے ان رہنماؤں میں سے ایک منفرد رہنما شہید جنرل اسلم بلوچ تھے جنہوں نے تمام تر تکالیف کا بہادری کے ساتھ سامنا کرکے اپنے لخت جگر ریحان جان کو دشمن کی ناپاک عزائم کیخلاف فدائی حملے کیلئے اجازت دے کر اسے خود اس راہ پر روانہ کیا اور قوم کو اس وقت کے الجھے حالات سے نکال کر شعوری جنگ سے روشناس کرایا۔

دو سال قبل پچیس دسمبر کو جنرل اسلم بلوچ اور ساتھیوں نے فلسفہ شہادت کو اپنایا، اپنا لہو دیکر قوم کو یہ باور کرایا کہ یہ راہ یہ فلسفہ رہنما اور سپاہیوں کیلئے یکساں ہے، پچیس دسمبر کا دن ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ ہم تحریک کے تقاضات پر بلا جھجک پورا اتریں اور فلسفہ شہادت کی رسی کو مظبوطی سے پکڑیں اور دشمن کیخلاف بنا اپنی جان کی پرواہ کئے یکجہتی کیساتھ مزاحمت کریں اپنے تمام تر قوت و قابلیت کو اس تحریک کیلئے صَرف کریں جس سے آنے والی نسل اس غلامی کی ذلت کے سائے بچ جائے۔

شہید جنرل اسلم بلوچ سمیت تمام شہداء کے خون کو ہمیں اپنے خون سے تازہ کرتے رہنا ہے کیونکہ ایسے سفر میں جب خون سوکھ جائے تو قوم کو مذید غلامی ذلت سے گزرنا پڑے گا اور قوم کی نسلیں ایک اور طویل جنگ سے گزریں گے بہر حال ہمیں کسی بھی حالت فلسفہ شہادت کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا اور دشمن کو شکست دینا ہوگا یہ جنگ ہمیں کسی طاقتور کی حمایت سے نہیں بلکہ اپنے زورِ بازو سے لڑنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں