محصور گوادر – حکیم واڈیلہ

488

محصور گوادر

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

افریقی کامیڈین لویسو گولا لائیو ایٹ اپولو شو میں کھڑے ہوکر موجودہ برطانوی نسل پرستی پر لطیفہ کستے ہوئے کہتے ہیں کہ “آپ کے ہاں کی نسل پرستی میں سمجھ نہیں پارہا، یہ نچلے درجے کا ہے، کوئی کہتا ہے میں اس نسل سے نہیں اُس نسل سے ہوں، میں نے اپارتھیڈ افریقہ دیکھا ہے، ہمارا ریسزم بہت ہی خالص قسم کا تھا، ہمارے ہاں ساحل سمندر پر بڑے سائن بورڈ لگے ہوتے تھے کہ کالوں کی یہاں انٹری پر پابندی ہے، کیونکہ گورے انجوائے کررہے ہیں۔”

یہ لطیفہ ہنسی مزاق کے حد تک حس مزاح سے بھری نظر آتی ہے، لیکن اس کے پیچھے جو پیغام ہے اس کے پیچھے کی جو کہانی ہے، اس کے پیچھے جس کا درد، کرب، اذیت اور تباہ کاریوں سے جنوب افریقی عوام کو گذرنا پڑا ہے۔ اس درد کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کرب کو محسوس کرنا اہم ہے اور پھر اس درد کو اس کرب کو اس نسل پرستی کو اپنے اردگرد کے ماحول میں ڈھونڈنے کی کوشش کرنا بھی ہم سب پر فرض ہے۔

آج اگر افریقی کامیڈین اس مقام تک پہنچا کہ وہ برطانیہ میں کھڑے ہوکر ماضی کے گہناونے سچ کو گوروں کے سامنے مزاحیہ انداز میں پیش کررہا ہے تو اسکی سب سے بڑی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ وہ کس طرح اس اذیت ناک ماحول سے نکل کر آج اتنے خاص ہوگئے کہ لوگ انہیں پیسے دیکر سنتے ہیں، جبکہ انکے آباواجداد کو دنیا بھر میں ذلت، خواری، بھوک اور غلامی کا سامنا ہی رہا ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افریقہ نے اس ریسزم کیخلاف مزاحمت کیا۔ انہوں نے اس فرق کو اپنے جدوجہد، اپنی قومی یکجہتی، اپنی قومی مزاحمت سے ختم کیا کہ کوئی گورا یہاں کہ کسی مقامی باشندے (کالوں) پر زبردستی حاکمیت نہیں کرسکتا۔

ہمارے کہانی میں طاقت ور، نسل پرست، ظالم و قابض کوئی گورا تو نہیں لیکن گوروں سے متاثر ضرور ہیں۔ ہمارے سر پر منڈلاتے ان طوفانی بادلوں نے جسطرح سے آج بلوچ ساحلی پٹی کو باڑ لگا کر ہم سے مکمل طور پر چھین کر چین کے حوالے کرنے کی سازش کو مزید ایک قدم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے، اس سے ان خدشات کو حقیقی شکل مل جاتی ہے کہ بلوچوں کو اپنے ہی آبائی علاقوں میں بدترین غلامی کی زندگی گذارنا ہوگی۔

آج جسطرح سے گوادر شہر کو سیل کیا جارہا ہے آج جس تیزی سے سیکیورٹی کے نام پر قابض قوتیں مقبوضہ بلوچستان کے سب سے اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کو مکمل اپنے کنٹرول میں لینے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں، اس سے یہ گمان پیدا ہو چکا ہے کل کے گوادر میں اگر چینی منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو وہاں نہ صرف بلوچوں کو افریقی عوام کی طرح گلے میں پھٹا ڈال کر اپنے ہی سرزمین پر کتوں سے بدتر زندگی گزارنی ہوگی۔ بلکہ چین میں جس ظلم و بربریت کا شکار ایغور مسلم اقلیت ہے اس سے کئی گناہ زیادہ جو کسی کے تصور میں بھی نہ ہو چینی مظالم بلوچستان پر ڈھائے جائینگی۔

اگر آج بھی کچھ لوگ یہ راگ الاپنے میں مشغول ہیں کہ گوادر کو ترقی دی جارہی ہے اور ترقی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ گوادر کے عوام کو انکے ساحل سے دور رکھا جائے گوادر کو سیل کرکے عوام کو شہری مرکز سے دور دھکیل دیا جائے تو پھر ترقی کی انتہا تربیتی کیمپوں کے نام نسل کشی کے مراکز کی صورت میں ہی ہوگی۔

آج بلوچستان میں موجود، گوادر میں مقیم پیر و ورنا کو اپنے اردگرد دیکھنا چاہیے، انہیں کسی اور کے بھاشن، تحریر اور بیانات کے بجائے اپنے سماج کی حقیقی تصویر کا خاکہ بناکر دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ فلسطین کی آزادی کی خاطر مارچ کرتے ہیں کیا وہ لوگ انکے ساتھ اسرائیل جیسا برتاؤ نہیں کررہے ؟ گوادر کے نوجوانوں ماؤں بہنوں سب کو یہ دیکھنا چاہیے جو لوگ کشمیر کی حرمت پر قربانی کے دعویدار بنے پھرتے ہیں کیا وہ بلوچوں کی حرمت بلوچوں کی شئے رگ گوادر کو ان سے نہیں چھین رہیں؟

آپ آزادی چاہتے ہیں یا نہیں، آپ سیاست کرتے ہیں یا نہیں آپ کو ان تباہ کاریوں سے فرق پڑتا ہے یا نہیں قطع نظر، ان تبدیلیوں کا اثر آپ پر ضرور پڑیگا جب ایک ایسی مخلوق چین سے گوادر منتقل کی جائیگی جس کے لئے گوادر کے عوام کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ اہمیت نہ رکھتے ہوں تو آپکو اس قدر تباہ کاریوں کا سامنا ہوگا کہ آپ کی بیگانگیت بھی آپکو معاف نہیں کریگی۔

بلوچ قوم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست کا ہر ایک عمل ایک ٹیسٹ کے طور پر ہوتا ہے، وہ کل گوادر کے عوام کی بلوچ سیاست میں اہمیت کو بھی دیکھ چکا ہے۔ جب بلوچ خواتین کو انصاف دلانے، منشیات کیخلاف یکمشت ہونے اور بلوچ طلبا کے حقوق کیلئے گوادر نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا، آج وہ یہ دیکھ رہے ہیں کیا یہ آواز صرف بلوچستان کے کٹھ پتلی حکومت، اور ڈیتھ اسکواڈز تک ہی محدود ہے یا گوادر کا شعور فوجی سازشوں کو بھی ناکام کرنے کا مجاز رکھتا ہے۔

ہم جانتے ہیں گوادر اس مشکل سے نکلنے کا فن جانتا ہے گوادر اس عذاب کو روکنے کا فن بھی جانتا ہے۔ گوادر سیاست و مزاحمت کو ایک نئی جہت بخشنے والا ایک ایسا تاریخی علاقہ جس کے ساحل نے ہمیشہ ہی بیرونی قابض کی گندگی و درندگی کو نکال میلوں دور پھینکا ہے۔

آج گوادر کو بلوچستان کی ضرورت ہے، آج گوادر کو ہر اس انسان کی ضرورت ہے جو سمجھتا ہے کہ بلوچ سرزمین پر بلوچ ہزاروں سالوں سے مقیم ہیں اور اپنی تاریخ پر فخر کرتا ہے۔ آج پھر تاریخ کو دہرانے اور عملی طور تاریخ لکھنے کا وقت آ چکا ہے اسی لیے اہم ترین شئے یہی ہے کہ ہر ایک شخص اپنے بساط کے مطابق اپنی سرزمین کی خاطر مکمل ایماندارانہ جدوجہد کرتے ہوئے گوادر سمیت پوری بلوچستان پر لگے قابض ریاست کے باڑ کو اکھاڑ دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔