قومی مقصد کیلئے لاحاصل جہد
تحریر: عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
طبقاتی لوگ میں نے سنا ہے لیکن لوگوں میں طبقاتی سوچ میں نے پہلی بار محسوس کیا، کسی اجتماعی مقصد کیلئے لوگ ہمیشہ جہد میں برسرپیکار رہتے ہیں لیکن وہ ایک واحد طریقے سے نہیں بلکہ ہر کوئی اپنے طریقے سے اپنی سوچ و ذہن کی بناء پر جہد کر رہا ہوتا ہے گرچہ ان کا مقصد ایک ہی ہے، ان کے ذہنوں کی ترتیب ایسی ہوتی ہے کہ وہ اگر ایک چھوٹی مقدار پر اس جہد میں اپنی شراکت دے رہے ہوں تو ان کو لگتا ہے کہ اصل جہدکاروں کے برابر اس جہد میں شریک ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبا رہے ہیں، حالانکہ ایسے لوگوں کے طریقے منفی اثرات مرتب کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کو اس بات کا بالکل شعور نہیں ہوتا، وہ فقط اپنے طریقے کی بناء پر اپنی مرضی سے اپنی لاحاصل شراکت دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اب میں واضح طور پر اظہار کردوں کہ سطح پر جو بلوچ طلبہ تنظیمیں یا بلوچ قومی پلیٹ فارم ہیں وہ ہمیشہ اس عمل کے مرتکب نظر آتے ہیں جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ہوتا، کبھی کسی کے بے گناہ قتل کے خلاف تو کبھی کسی کے ماروائے عدالت اغواء یا ان کے بازیابی کے خلاف، اور اس جیسے کئی غیر منصفانہ اور غیر انسانی ارتکاب کے خلاف نہ صرف سراپا احتجاج بلکہ سوشل میڈیا پہ مختلف بیان بازی کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنی اصل مقصد کے حصول کی جہد میں اپنی شراکت دے رہے ہیں، اکثریت کو نہیں بلکہ ان میں کچھ تو ہونگے جن کو یہ شعور ہوگا کہ اصل مقصد کے حصول کیلئے بہترین ذریعہ و طریقہ کیا ہے، اس شعور کے ہونے کے باوجود بجائے دوسرے نیم پختہ اراکین کو آگاہی دیں وہ خود ایسے لاحاصل اعمال کے مرتکب نظر آتے ہیں۔
دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جن کو دیکھ کر یا سن کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو اس وقت تک سنا نہیں جاتا جب تک آپ نے خود کو منوایا خود نہیں ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ خود کو منوانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس طریقے کے بارے میں شعور ہونا بہت ضروری ہے، جیسے میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو تو اس طریقے کا شعور بھی ہے، خاص طور پر ان طلبہ تنظیم والوں میں کچھ کو، لیکن پھر بھی وہ دوسرے لاحاصل اعمال میں برسرپیکار رہتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ اس سے وہ قومی تحریک میں اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ اب جب ان کو پتا ہے کہ بغیر خود کو منوانے کا طریقہ اپنانے کے ان کو سنا نہیں جارہا، نہ قومی مطالبات پورے کیئے جارہے اور نہ ہی قومی حقوق دیئے جارے ہیں تو پھر بھی اس طریقے کو اپنانے اور اصل جہد میں شریک ہونے سے گریزاں کیوں ہیں وہ؟
دنیا میں دوسرے خطے و علاقوں میں ہم (بلوچ) سے زیادہ ناگزیر وحشیانہ اور غیر انسانی و غیرمنصفانہ تسلسل اور رجحانات رہ کر گزرے ہیں، اور رہتے آرہے ہیں، ان میں اگر افغانستان میں معصوم و بے گناہ لوگوں کی ہائے روز بڑی تعداد میں قتل عام ہو یا شام اور فلسطین میں بھی یہی صورتحال اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہو، برما اور چین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا کردستان میں کردوں کے حقوق کی پامالی اور ان کی نسل کشی ہو، ان کے علاوہ اور کئی خطوں میں انسانوں کے ساتھ ایسی تسلسل کا ارتکاب پیش نظر ہونگے لیکن کبھی ان کے بارے میں کسی عالمی برادری انسانی حقوق کے علم برداروں یا اقوام متحدہ وغیرہ نے کوئی مخلص نوٹس لیا ہے؟ کوئی مہم یا کمیٹی تشکیل دی ہے جنہوں نے سازگار ہو کر پھر وہ مسئلہ حل کیا ہو جو اب ہم بلوچوں کی سن کر ہمارے قومی مسائل حل کریں گے؟ نہیں، نہ یہ ادارے کبھی ہمیں سنیں گے، نہ کوئی دوسری ہمدرد ملک و ریاست اور نہ ہی قابض پاکستان سنے گا۔
استعماری و سامراجی کیفیات دیکھے جائیں تو ایسے تسلسل کے خلاف صرف احتجاج کرنے اور سوشل میڈیا پہ آواز اٹھانے تک مظلوم و محکوم طبقوں کو محدود رکھنا ریاست پاکستان کے حربوں میں سے ایک کا احساس ہوتا ہے، وہ لوگ جو مانتے ہیں کہ وہ اپنے قومی حقوق کی پامالی کے خلاف اور اپنے مطالبات ایسے احتجاج کر کے ان مسائل کو حل کریں گے تو یہ ان کی بھول ہے، اپنا وقت ضائع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں، یہاں سامراجی و استعماری نظام چل رہا ہے اور اس نظام میں یہ سب معائنے نہیں رکھتے، سب سے پہلے اور ضروری یہ کہ اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کیا جائے، اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شعور حاصل کرنی ہوگی لوگوں کو تاکہ اصل و حقیقی اور واحد راستے کا انتخاب کرکے ان کو حقیقی مقصد اور اپنے اوپر ناگزیر تسلسل و رجحانات سے چھٹکارہ حاصل ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں