بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی شعبہ براہوئی کے چیئرمین لیاقت سنی کی جبری گمشدگی بلوچ دانش و شعور پر حملہ ہے۔ اس سے قبل پروفیسر صبا دشتیاری، پروفیسر رزاق زہری، زاہد آسکانی، ماسٹر نذیر مری، ماسٹر علی جان سمیت درجنوں بلوچ دانشوروں کو شہید کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ دانشوروں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ اپنی نوعیت کے حوالے سے نئی نہیں بلکہ گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ دانشور طبقہ ریاستی جبر کا شکار ہے۔ درجنوں کی تعداد میں اساتذہ اور صحافی حضرات کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں طالبعلم تاحال لاپتہ ہیں اور سینکڑوں طالبعلموں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔ریاستی جبر کے اس سلسلے کا بنیادی محرک شعوری میدان میں سرگرم عمل بلوچ دانشوروں اور طالبعلموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور بلوچ سماج کو بانجھ بنانا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ دانشوروں کی جبری گمشدگی جیسے عمل کا مقصد تعلیمی شعبے سے منسلک افراد میں خوف کی فضا قائم کرنا ہے۔ علمی سرگرمیوں کی روک تھام اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبعلموں اور اساتذہ میں قومی فکر کو جمود کا شکار بنانے کے لیے آئے روز نت نئے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جارہا ہے جبکہ جبری گمشدگی کے واقعات سمیت تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر بھی قدغن عائد ہے اور طالبعلموں کو ہراساں کرنے سمیت انھیں اداروں سے بے دخل کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ گذشتہ شام پروفیسر لیاقت سنی کی جبری گمشدگی کے فوراً بعد صوبائی حکومت کے ترجمان نے اس جبری گمشدگی کے واقع کو اغواء برائے تاوان جیسے واقعے کی رنگ دینے کی کوشش کی ہے لیکن بلوچ عوام ریاست اور اس کی اداروں کے تمام ہتھکنڈوں اور سازشوں سے بخوبی واقف ہے۔ یہ واقعہ بلوچ دانشوروں پر گذشتہ دو دہائی سے جاری حملوں کا تسلسل ہے۔ ہم بلوچ عوام سمیت تمام محکوم اقوام سے گزارش کرتے ہیں کہ پروفیسر لیاقت سنی کی جبری گمشدگی کے خلاف سڑکوں پر نکلیں اور اس ظلم و جبر کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائیں۔