جہد مسلسل اور بی ایس او – حماد بلوچ

325

جہد مسلسل اور بی ایس او

تحریر: حماد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایس او کی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط تاریخی کردار سے بلوچ قوم و دیگر محکوم اقوام کی انقلابی لیڈر شپ و نظریاتی کارکنوں سمیت دنیا کے مہذب ترقی پسند انقلابی تحریکیں، دنیا کا پڑاے لکھا طبقہ خصوصاً ریڈیکل طلباء تنظیموں سے تعلق دار انقلابی طلباء قیادت اور دنیا کے مختلف کونوں میں بسنے والے باشعور طبقہ بی ایس او کی تاریخی کردار اور قومی بیداری کے لئے جہد مسلسل سے واقفیت رکھتی ہیں۔ بی ایس او جیسا کہ نام سے ظاہر ھے کہ یہ ایک طلباء تنظیم ھے مگر بحیثیت طلبہ تنظیم کے بی ایس او نے بلوچ سیاست میں نہ صرف ایک نرسری یا علمی درسگاہ کی حیثیت رکھتا ھے بلکہ مختلف اوقات میں تنظیم نے بلوچستان میں قومی ماس پارٹی کا بھی کردار بخوبی ادا کی ھے اور اس قومی مادر علمی نے اپنے اس نصف صدی کے طویل دورانیہ میں مختلف نشیب و فراز دیکھے.

بلوچ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کے عمل نے اس طلباء تنظیم کو بھی اپنے زیر اثر کرکے مختلف اوقات میں مختلف دھڑوں میں تقسیم سے دوچار کیا نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اس انقلابی طلباء تنظیم کا سیاست و سیاسی عمل اور قومی تحریک میں بحیثیت طلباء تنظیم کے ایک فعال اور متحرک جز کے عروج و زوال. اتار چڑھاو کے مختلف ادوار دیکھے. تنظیم کے اندر سیاسی. فکری و تنظیمی اختلافات. سیاسی جماعتوں و شخصیات کی مداخلت. ذاتی وگروھی مفادات. تنظیم کے اداروں میں بےجا مداخلت نے اس مادر آرگنائزیشن کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار کرکے محض ایک پاکٹ آرگنائزیشن تک محدود کردیا تھا.

بی ایس او کے مختلف دھڑوں میں تقسیم نے بلوچ طلباء سیاست میں مایوسی تاری ہوئی تھی اور دوسری جانب ریاست تشدد آب و تاب سے جاری اور بلوچ وسائل کو عالمی منڈی میں ریاست کی جانب سے نیلام کی جارہی تھی اور اس دوران غیرت مند باشعور طلبہ رہنماوں نے ضرورت محسوس کی کہ ہم ان محلاتی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی یکجہتی اتحاد و اتفاق وقت کی اھم ضرورت ھے اس دوران بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد میں ایک ایسی ابھار آئی کہ اس ابھار نے مختلف دھڑوں کو یکجا کیا۔

لیکن پھر سے ذاتی و گروہی مفادات لینے والے جی حضور والے پھر سے اس تنظیمی انضمامی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار چھانٹی کا ایسا عمل ہوا کہ نظریاتی کارکنوں نے اپنے اہداف متعین کرکے نیشنلزم کے حقیقی فکر کی پرچار کرنے لگے اور بی ایس او آزاد کے شکل میں بلوچ طلباء کو حقیقی انقلابی پلیٹ فارم میسر ہوا جس نے بلوچ کے ہر طبقے کو بلوچ قومی تحریک سے مظبوط نظریہ اور کمٹمنٹ کے ساتھ جوڑے رکھا۔

یہی وجہ تھی کہ ریاست بی ایس او آزاد کی قیادت اور کارکنوں سے خوفزدہ تھی جس کی پاداش میں تنظیم کے قیادت کو شھید کرکے اور گرفتار لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور تنظیم کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے نہ صرف ان کے سیاسی عمل پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی بلکہ ریاست نے بی ایس او آزاد پر بھی پابندی عائد کر دی یقنا کالونائزر کی کوشش یہی ہوتی ہے کے وہ محکوم اقوام سے انکے وہ درسگاہ چھین لے جو حقیقی انقلاب کی تعلیم دیتے ہوں-

بی ایس او ازاد نے طلباء سمیت بلوچ کے ہر طبقہ کو قومی شعور کا راستہ دکھایا جس کی وجہ سے اپنے سات سالہ انڈر گراونڈ سیاست میں بھی بی ایس او ازاد بلوچ طلباء کی شعوری تربیت کرتا رہا ہے اور بلوچ طلباء نے ہمیشہ بی ایس او ازاد کی ضرورت کو محسوس کرکے آزاد کے پروگرام سے جڑے رہے ہیں ریاستی کریک ڈاون کے باعث سیاسی گراونڈ کو خالی دیکھ کر غیر انقلابی گروہوں کے جانب سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی وقتی ہوگی-

ایک اور ذمہ داری بی ایس او ازاد کے قیادت پر اب بھی عائد ہوتی ہے کے وہ بی ایس او آزاد کے پروگرام کو مزید تقویت دے کر اسے بلوچ طلباء کے قریب لایا جائے بجائے اسکے دوسری قوتوں پر اعتماد کیا جائے بی ایس او آزاد کے اپنے قیادت کو یہ ذمہ داری لینی چاھیے تاکے بلوچ طلباء کو غیر انقلابی گروہوں سے بچا کر انکی سیاسی تربیت کیا جاسکے اور بی ایس او آزاد کے پروگرام سے بلوچ طلباء کو بلوچ قومی جدو جہد میں شامل عمل کیا جاسکے۔

جدو جہد طویل ہے وقتی فیصلے اور مشکلات ضرور انقلابی تنظیموں کے سامنے رکاوٹ بنتے رہے ہیں پر شعور یافتہ بلوچ کی ضرورت آج بھی بی ایس او ازاد رہی ہے بی ایس او کے پروگرام اور نظریہ کو زندہ رکھنے والے بلوچ طلباء ہی حقیقی جہدو جہد کے ضروریات کو سمجھ کر خود بی ایس او کے نظریہ کو عام کرنے کی کوشش کو تیز کردینا چائیے اس امر کے ساتھ کے ہمارا ایمان شعور جہدو آخری فتح پر ہے –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں