نوآبادیاتی نفسیات اور بلوچ بازار – کہدہ بلوچ

431

نوآبادیاتی نفسیات اور بلوچ بازار

تحریر: کہدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کیا میں واقعی انسان کا درجہ رکھتا ہوں؟ میں اپنی زبان میں کیوں بات کروں اگرچہ اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں؟ میں تو جاہل وحشی جنگلی اور غیر مذہب ہوں اور زندگی کے ہر میدان میں نوآبادکار سے کمتر ہوں۔

مجھے آج بھی اپنا گاؤں (بلوچ بازار) جو مانو زمین پر جنت کی ایک تصویر تھی. بلوچ بازار جو ہمارا تھا جہاں ہم سب ہنسی خوشی سے رہتے تھے،سب کا درد ایک اور خوشی ایک تھی، جہاں ہر کوئی آزاد تھا نہ کوئی روکنے والا اور نہ ہی پوچھنے والا ۔ ہمارا گاؤں جس کے مالک ہم تھے، جس کے فصلوں کے اناج ہمارے تھے، جس کے کنویں کا پانی ہمارا تھا۔ بلوچ بازار کے لوگ اپنی زبان ثقافت اور رہن سہن کی وجہ سے اپنے اردگرد کے تمام لوگوں سے الگ تھے۔ پھر ایک رات جس نے بلوچ بازار کے لوگوں کی زندگی بدل دی۔

کاکو نام کے ایک ڈاکو نے اپنے لشکر کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا (کاکو جو کہ بغل والے گاؤں کا سردار تھا) اور تلوار کی نوک پر ہم سے سب کچھ چھین لیا، ہماری آزادی، خوشیاں، زمین، وسائل اور تب سے لے کر آج تک بلوچ بازار کے لوگ اپنی زمین پر غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بلوچ بازار کے لوگوں کو بولنے کا حق نہیں اگر کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو مار دیا جاتا ہے یا اسے اس طرح غائب کیا جاتا ہے جس طرح پانی سے نکلا ہوا بھاپ فوری غائب ہوجاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بلوچ بازار کا ہر فرد اس غلامی کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگاہے، اگر نہیں تو کیوں؟ اس کے کچھ بنیادی وجوہات نوآبادکار کے نوآبادیاتی منصوبے ہیں۔ جب ہم نوآبادیاتی تاریخ کی طرف رخ کرتے ہیں تو نوآبادکار اور نوآبادی باشندے کا رشتہ تین عناصر پر نظر آتا ہے۔

تشدد اور ڈر:
جب نوآبادکار کسی کی زمین پر قبضہ گیر ہوتا ہے، تو وہاں پر تشدد اور ڈر کا ایک ماحول پیدا کرتا ہے۔ تشدد اور ڈر جو نوآبادکار کا بنیادی آلے ہیں، جس کا استعمال نوآبادیاتی باشندوں پر ان کی غلامی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی باشندے اس تشدد کے ماحول کو دیکھ کر چپ رہتے ہیں کہ کہیں یہ تشدد ان پر بھی نہ ہو لیکن وہ معصوم اور انجان لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ یہ تشدد ہر نوآبادیاتی باشندے کے نصیب میں ہے آج نہیں تو کل۔

استحصال:
جب کوئی طاقتور سماج کسی مظلوم سماج پر قبضہ گیر ہوتا ہے، تو اس کی ایک بنیادی وجہ مظلوم کا استحصال کرنا ہوتا ہے۔ نوآبادکاری نظام میں نوآبادکار مظلوم کی زمین کو اپنی تجارت کے لئے استعمال کرتا ہے، اس کے ساحل وسائل پر قبضہ کرکے اپنی معاشی حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس دور استحصال نوآبادکار ترقیاتی کام (جیسے روڈ، بجلی، پانی) کے نام پر استحصال کو اور بھی تیز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور عام عوام کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے اس میں یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ یہ ترقی تمہارے لیے ہے۔

نفسیات:
مظلوم اور ظالم کا ایک ہی رشتہ ہے (نفرت کا)۔ ظالم ہمیشہ مظلوم کو جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی غلامی کی زنجیروں میں بندھے رکھتا ہے۔ وہ اس کو ہر لحاظ سے یہ باور کراتا ہے کہ وہ جاھل وحشی اور کمتر ہے وہ ساری زندگی اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک اسی تعصبانہ رویہ کا سامنا کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ احساس کمتری اور محرومی کا شکار ہوتا ہے، اور وہ اس بات کو قبول کرتا ہے کہ وہ واقعی نوآبادکار سے کم تر ہے اور اس کا اور نوآبادکار کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس ڈر، تشدد، استحصال اور نفسیاتی غلامی کے دریا میں مظلوم اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ وہ اس دریا میں گھٹن کی سانس کو تسلیم کرکے مر جانا قبول کرتا ہے مگر اس دریا سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب بلوچ بازار کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان کو یہ غلامی کی زندگی قبول ہے اور وہ اسی گھٹن میں مرنا چاہتے ہیں یا اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی زمین کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں