بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کی تمام مرکزی شاہراہوں کو دو رویہ کرکے ان پر ٹراما سینٹرز تعمیر کیئے جائیں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ رواں سال مارچ سے لیکر ستمبر تک بلوچستان کے مرکزی شاہراہوں پر 5451 روڈ حادثات میں 747 افراد شہید جبکہ 8 ہزار 257 زخمی ہوگئے اگر مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوا تو دوبارہ وڈھ سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے چمن تک پیدل لانگ مارچ کرینگے۔
ان خیالات کااظہار بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے چیئرمین نجیب یوسف زہری، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب، نمرہ پرکانی، بسمل بلوچ، ڈاکٹر صفی اللہ و دیگر نے روڈ حادثات میں شہید ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس سے قبل جامعہ بلوچستان سے کوئٹہ پریس کلب تک ٹریفک حادثات میں شہید ہونے والوں کی یاد میں واک کا اہتمام کیا گیا جس میں بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے نمائندوں، طلباء و دیگر نے شرکت کی۔
علاوہ ازیں خضدار، قلات، پنجگور، سبی اور وندر میں بھی بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کی جانب سے ریلیوں اور تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں نوجوانوں کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔ شرکاء نے روڈ حادثات میں جانبحق افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹریفک حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں رواں سال مارچ سے لیکر ستمبر تک بلوچستان کے مرکزی شاہراہوں پر 5451 روڈ حادثات میں 747 افراد شہید جبکہ 8 ہزار 257 زخمی ہوگئے یہ سب کچھ تنگ شاہراہوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے 12 مارچ 2020 سے کراچی ٹو کوئٹہ پیدل لانگ مارچ شروع کیا اور جب وہ وڈھ تک پہنچے تو کورونا کی وجہ سے انہیں پیدل مارچ کو موخر کرنا پڑا اس دوران این ایچ اے حکام کی جانب سے ان کے ساتھ رابطہ کیا گیا کہ مارچ ختم کیا جائے ان کے مطالبات پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا مگر مارچ ختم کرنے کے بعد ابھی تک کسی بھی شاہراہ پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔
مقررین نے کہا کہ ان روڈ حادثات میں بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بیٹے ہم سے جدا ہوئے جن میں کمشنر طارق زہری، ڈاکٹر امان اللہ ترین، ڈاکٹر یاسین بلوچ، ڈاکٹر عطاء نیچاری، پروفیسر جان پرکانی و دیگر شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کی تقریب میں شرکت کیلئے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی تھی مگر بد قسمتی سے اس اجتماعی نوعیت کے مسئلے کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا اور آج کے تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوا تو وہ دوبارہ وڈھ سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے چمن تک پیدل لانگ مارچ کرینگے اگر پھر بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے پرمجبور ہونگے۔
تقریب کے آخر میں روڈ حادثات میں شہید ہونے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کی گئی۔