قومی مقصد اور شعوری فقدان
تحریر: عبدالہادی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان بغیر علم اور شعور کے نا صرف اپنے مقصد کو پرکھنے میں ناکام ہوتا ہے بلکہ اگر کوئی اور اس کے ذہن میں یہ ڈال دے کے فلانہ کیفیت آپ کا مقصد ہے اور آپ نے اس کے حصول کیلئے کوشاں ہونا یا جہد کرنا ہے تو وہ ایک وقت تک اپنے شعور سے کھوکھلے و مفقود ذہن سے اس مقصد کےلئے جہد تو کرتا ہے لیکن وہ جہد و کوشش ایک دن کمزور ہوکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک جہد میں رہتا ہے جب تک حالات اس کے حق میں ہوتے ہیں۔ جب حالات نازک ہوتے ہیں تو وہ اس مقصد کو بھول ہی جاتا ہے کیونکہ اسے علم اور شعور ہی نہیں ہوتا اپنے مقصد کے بارے میں۔ جب علم و شعور ہی نہیں ہوتا تو جذبات و جنون سے بھی خالی ہوتا ہے۔ اب جب اس مقصد کے حصول کیلئے جذبات اور جنون ہی نہیں تو اس مقصد کیلئے جہد کر کے نہ صرف وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے بلکہ مجموعی طور پر اس مقصد سے جڑے ان تمام جہدکاروں سے بھی فریب کر رہا ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا منطق کے تناظر میں میں یہاں پوری دنیا کے لوگوں کو مخاطب تو نہیں کر سکتا، چونکہ میں ایک بلوچ ہوں اور میں صرف بلوچ قوم کے بارے میں ہی بات کرنا چاہونگا اور ان میں بھی بلوچ قومی جہدکاروں کو مخاطب کرکے۔
عام بلوچ میں اگر علم و شعور ہے تو اس پہ اتنا محو حیرت نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی عام زندگی میں ہوتے ہیں، لیکن بلوچ قومی تحریک و مسلح تنظیموں سے جڑے جہدکاروں میں ایسے جہدکار ملتے ہیں جن میں اپنے مقصد کیلئے علم و شعور اور قومی آذادی کیلئے جذبات و جنون نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ ان کو شاید یہ اب تک معلوم نہیں کہ یہ جنگ کس لیے یا کیوں ہو رہا ہے۔ ان میں نہ قومی ہمدردی، قوم کی غلامی کا احساس، بلوچ قومی نسل کشی کا احساس جو کل کو شاید ان کے خود کے گھر والے اس نسل کشی کا شکار ہوں، اپنے حقوق کی پامالی کا احساس، اور نہ ہی اپنے قومی و تاریخی پہچان کو مٹانے کی سازش جیسے اور کئی ایسی کیفیات کا احساس نظر آتا ہے۔ شعور کی انتہا تو کجا ان میں اپنے آپ کو پرکھنے اور جاننے کی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ خود کو، اپنے گھر والوں کو، نیز پوری تنظیم کو کس حد تک دھوکا دیتا آرہا ہے۔
ایک طرف فدائین شعوری فیصلے لے کر اپنے سر تن من سب کچھ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے آنے والے نسل کی آبادی و خوشحالی کےلئے، اور قومی آذادی کیلئے قربان کر دیتے ہیں، تو دوسری طرف اسی مقصد کیلئے دوسرے چند جہدکار اپنی پراسائش و سہولت یافتہ زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں تک جانے کو نہ صرف تیار نہیں بلکہ شہروں میں بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ذمہ داریوں سے بھاگ جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ تو شعوری جنگ ہے، اس میں نہ اپنا گھر دیکھا جاتا ہے، نہ اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کی سوچی جاتی ہے بلکہ اپنے سر و جان اور مال سب کچھ قربان کر کے اپنے آنے والے نسل کی آذادی و خوشحالی کیلئے سوچا جاتا ہے، تو کہاں ہے ان میں وہ شعور! شاید یہی وہ وجہ ہو سکتی ہے جو کچھ وقت پہلے بڑی تعداد میں جہدکار سرینڑر (surrender) کرتے ہوئے ملے تھے۔ ان میں اپنے مقصد کیلئے علم و شعور کی فقدان تو انتہا تھی، لیکن موجودہ وقت میں ساتھیوں میں کونسی وہ مجبوریاں ہیں جو شعور کو بھی تجاوز کر گئے ہیں؟ جہاں تک میں نے سنا ہے ایسی مقصد کیلئے شعور کی انتہا شرط ہوتی ہے، اگر نہیں تو ہونی چاہیے۔
حالات ہر جہدکار پہ یکساں نازک ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی فدائین کی ہو یا دوسرے جہدکار کی۔ جب حالات اور گھریلو کیفیت ہر دونوں کی ایک جیسی ہے تو شعور کیوں نہیں؟ اور اگر شعور نہیں ہو سکتا تو قربانی کیوں نہیں ایک جیسے ہوتے؟ اب چونکہ اپنے مقصد کیلئے علم اور شعور کا ہونا بہت ضروری ہے تو ان جہدکاروں کو موجودہ حالات کو مد نظر رکھ کر اپنے مقصد کو علمی اور شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگا یا تو وہ خود اور قومی تحریک کو دھوکا نہ دے کر اپنے نام نہاد مجبوریوں کی وجوہات کو سامنے رکھ کر اپنے زاتی ارادوں کا اظہار کر لیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔