بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں جامعہ بلوچستان کے انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعات کے احاطے میں سیاسی سرگرمیوں پر قدغن عائد کرکے طالبعلموں کو خوفزدہ کرنا اُن کے آئینی و جمہوری حقوق کو سلب کرنے کے زُمرے میں آتا ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہ جامعات کے احاطے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انوکھا نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی یونین سازی اور تعلیمی اداروں کے دائرہ کار میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں پر پابندی کی وجہ سے گھٹن اور خوف کی ایک ایسی فضا قائم ہے جہاں طالبعلم اپنے علمی، سیاسی اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے سے قاصر ہیں. تعلیمی اداروں میں خوف کے اس ماحول کو ایک سازشی حربے کے طور پر اپنایا جا رہا ہے تاکہ طالبعلم اپنے آئینی و جمہوری حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد سے دستبردار ہوسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ بلوچستان میں رواں سال خفیہ کیمروں کے ذریعے طالبات کو ہراساں کرنے کے اندوہناک واقعہ نے تمام ذی شعور انسانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس واقعہ کے خلاف تمام طلباء تنظیموں نے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود جامعہ کے احاطے میں احتجاجی مظاہرے کیے اور اس گھناؤنے عمل کے خلاف عملی طور پر جدوجہد کی، جامعہ کے احاطے میں ہونے والا یہ واقعہ طالبات کے تعلیمی تسلسل میں خلل ڈالنے اور انہیں تعلیم سے دور کرنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی۔ لہٰذا یونیورسٹی انتظامیہ ایسے انسانیت سوز واقعات کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو دبانے کےلیے دھونس دھمکی سے کام لے رہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ سیاست ہر فرد کا بنیادی اور آئینی حق ہے لہٰذا جامعات کے احاطے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنا ایک غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے۔ ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ جامعات کے احاطے میں سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی کو جلد از جلد ختم کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں ایک علم دوست فضا قائم رکھنے کے لیے عملی اقدامات کی جائیں تاکہ طالبعلم اپنے علمی، سیاسی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔