اکیسویں صدی میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک اور اس کی کیفیتی پیشرفت
تحریر: کہور خان
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی آزادی کی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب پاکستانی ریاست نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو بلوچستان پر جبری قبضہ کیا۔ جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی سامراج کی طاقت کمزور ہوگئ تو برطانیہ کو ہندوستان سے نکلنا پڑا۔
دوسری طرف سویت یونین کی سوشلسٹ ریاست کی اثرات ایشیا میں تھے تو برطانوی سامراج کو سویت یونین کے خلاف ایک اڈہ بنانے کی ضرورت پیش ہوئی کہ ایسی ریاست بنائی جاے تاکہ سویت یونین کا مقابلہ کیا جاسکے اور اور برطانوی سامراج کی خدمت کرتی رہے۔
برطانیہ کے حکمرانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو رہتے ہیں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقیدے مختلف ہیں۔ اس لیے وہ ایک ساتھ نہں رہ سکتے تو بہتر ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کیلئے الگ الگ ریاستیں بنائی جائیں۔
برطانوی سامراج کے حکمرانوں نے وہاں مسلمانوں اور ہندوؤں کے نمائندوں سے بات چیت کی کہ دونوں مذاہب کیلے بہتر ہے کہ آپ الگ ہوجائیں۔ انگریز بہت ہوشیار تھے اور انہوں نے “تقسیم کرو اور حکومت کرو “ کی پالیسی اپنائی اور پاکستان اور ہندوستان کی الگ الگ ریاستیں بنائی۔
بلوچستان پاکستان سے پہلے ایک آزاد ریاست تھا اور برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا۔ جب برطانیہ ۱۹۴۷ کو ہندوستان سے نکل گیا تو ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو بلوچستان کی آزادی کا اعلان دہلی میں ہوا۔ بعد میں پاکستان کے حکمران محمد علی جناح نے بلوچستان کے حاکم خان آف قلات میر احمد یار خان سے ملاقات کی اور بلوچستان کو پاکستان میں الحاق کرنے کی دعوت دی۔
خان آف قلات نے محمد علی جناح کو جواب دیا کہ میں اپنے بلوچ قوم اور ایوان بالا اور ایوان زیریں سے مشورہ لوں گا، تو دونوں ایوانوں نے بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ بعد میں ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو پاکستانی فوج بلوچستان میں داخل ہوا اور آہستہ آہستہ پاکستانی فوج نے پورے بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔
اس کے رد عمل میں خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم نے پاکستانی جبری قبضہ ک خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ چونکہ یہ بغاوت ایک محدود پیمانے پر تھی اور پارٹی اور عوامی فوج نہیں تھی تو پاکستانی فوج نے اس بغاوت کو کچل دیا اور ان کو شہید کیا۔
آغا عبدالکریم کے بعد نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۵۸ پاکستانی ریاست کے جبری قبضہ کے خلاف ایک بار پھر بغاوت کا اعلان کیا اور پہاڑوں میں گوریلا جنگ لڑی۔پاکستانی ریاست نے اپنی ساری فوج ان کی خلاف استعمال کرنے کے بعد نواب نوروز خان کو قرآن کے نام پر دھوکہ دے کر پہاڑوں سے اتر آنے کو کہا کہ “آپ لوگ پہاڑوں سے اترجائیں ہم آپ کو کچھ نہیں کریں گے۔”
نواب نوروز خان نے قرآن کی عزت کی اور پہاڑوں سے اتر آئے، تو پاکستانی فوج نے قرآن کی بے حرمتی کی اور نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو حیدرآباد جیل میں منتقل کردیا۔ نواب نوروز خان کو عمر قید کی سزا دی گئی اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں پھانسی دی گئی۔
اگر ہم حال کی بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا تجزیہ کریں تو یہ آغاعبدلکریم سے وابستہ ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔ ۷۰ سالوں سے بلوچ قوم پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر کا شکار ہے ۔ جب سے پاکستانی ریاست نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا اس وقت سے پاکستانی ریاست نے بلوچستان کو پسماندہ رکھا اور بلوچ قوم کو اپنے نوآبادیاتی نظام میں برقرار رکھا۔
بلوچستان کی زمین قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے اور یہاں تیل، گیس، کوئلہ، تانبا، سونا، چاندی، کرومائیٹ ،سنگ مرمر اور ایک وسیع سمندر کا مالک ہے۔ اس کے باوجود بلوچ قوم غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کے فوجی ٹولے نے ہر وقت بلوچستان کے معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کی اور بلوچستان کے معدنیات نکال کر منافع کما رہے ہیں، اور ان منافعوں کو بلوچستان کے عوام پر خرچ نہیں کر رہے ہیں۔ اور اپنی عیاشیوں اور دولت کو بڑھا رہے ہیں۔
جب بلوچ قوم نے اپنی آزادی اور اپنے بنیادی حقوق کی لیے آواز اٹھائی تو پاکستانی ریاست نے بلوچ قوم کی آواز کو دبایا اور ہزاروں لوگوں کو زندانوں میں بھیج دیا گیا اور ان میں سے اکثریت کو شہید کیا گیا۔ حالیہ بلوچ قومی تحریک نے اس وقت شدت اختیار کی جب مشرف کی فوجی آمریت نے نواب اکبر خان بگٹی اور ان کے ساتھیوں کو ۲۰۰۶ میں شہید کیا تو سارے بلوچستان میں ایک بار پھر ایک چنگاری اٹھی، ایک قول ہے کہ “ایک چنگاری سارے گیاہستان کو جلا سکتی ہے۔”
تو اس چنگاری نے سارے بلوچ قوم کو بیدار کیاکہ بلوچ قوم پاکستانی ریاست کے خلاف اپنی آزادی کے لیے بغاوت کرے۔ کیونکہ بلوچ قوم نے ۷۰ سالوں سے پاکستان میں رہتے ہوے پرامن طریقے سے اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی لیکن عملی طور پر یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کام نہیں کر سکتا ہے۔ یہاں ہر وقت فوجی آمریت کا قبضہ ہے اور یہ نام نہاد جمہوریت ایک دھوکہ ہے اور عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
اس لیے معروضی حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ بلوچ قوم کو اپنے آزادی اور حقوقُ کے لیے مزاحمت کا راستہ اپنانہ چاہئے۔ تو بلوچ قوم نے یہ محسوس کیاکہ بغیر انقلابی پارٹی اور عوامی فوج کی اس ظالم ریاست کے خلاف جنگ ناممکن ہے پھر یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ بلوچ قوم کو اپنا مادر وطن اور اپنے عوام کی دفاع ایک قومی فوج بنائی جائے اور ان معروضی حالات میں BLA,BLF,BRA اور بہت سارے گوریلا گروپس کا قیام عمل آیا۔ یہ سارے بلوچ قومی فوج ہیں اور سارے بلوچ قومی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ بلوچ قوم کے لیے ایک کیفیتی تبدیلی تھا۔
بلوچ قوم پاکستانی ریاست کے خلاف ۲۰ سالوں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ یہ ایک قومی انقلابی جنگ ہے ۔ اس جنگ کا مقصد پاکستانی ریاست اور بلوچ قومی آزادی کے تضادات کو حل کرنا ہے، یہ تمام بلوچ قوم کی جنگ ہے ۔ اس میں سارے بلوچ قوم حصہ لے سکتے ہیں۔ چائے وہ جاگیردار، سرمایادار، کسان، مزدور کوئی بھی ہو بلوچ قوم کے سارے طبقات حصہ لے سکتے ہیں۔ اور اس جنگ کا ہدف پاکستانی ریاستی مشینری ہے اس میں پولیس، فرنٹیر کور، فوج اور ریاست کے سارے ادارے ہیں جو بلوچ قومی آزادی کے خلاف کام کررہی ہیں۔
ان ۲۰ سالوں میں بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ نے پاکستانی اور پنجابی ریاست کی نیندیں حرام کردی ہیں اور پاکستان کے سارے مظلوم قوموں کو ایک ایسا جوش و جزبہ دیا ہے کہ اس ظالم اور طاقتور فوج کے خلاف جنگ ممکن ہے اگر ضرورت ہے تو صرف ایمانداری، بہادری اور اپنے قوم اور سرزمین سے محبت کی۔
بلوچ قوم اپنی مدد آپ کے تحت اس ظالم ریاست کے خلاف لڑ رہا ہے اور اپنی گوریلا تدبیر، حکمت عملی اور دشمن سے چھینے ہوے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ کو آگے لے جارہا ہے۔ بلوچ قوم کو اس وقت عالمی دنیا میں کوئی مدد حاصل نہیں، اس وقت دنیا میں کوئی انقلابی اور سوشلسٹ ریاست موجود نہیں جو مظلوم قوموں کو مدد فرائم کرسکے۔
۲۰ ویں صدی میں سویت یونین اور چین میں ماوزتنگ کی رہبری میں ایک سوشلسٹ بلاک تھا اور ان کی ہر وقت پالیسی یہی تھی کہ دنیا میں سارے مظلوم قوموں کی مدد کی جائے۔ لیکن ۱۹۵۶ میں اسٹالن کے وفات کے بعد ترمیم پرستوں نے سویت یونین، کمیونسٹ پارٹی اور ریاست پر قبضہ جمایا اور سویت یونین کو سرمایادارانہ نظام کی طرف لے گئے اور چین بھی ۱۹۷۶ میں ماوزتنگ کی وفات کے بعد ترمیم پسندوں کے کنٹرول میں چلی گئی۔ اب چین اور روس ایک عظیم سامراجی اور سرمایادارانہ نظام میں تبدیل ہوگئے ہیں، سامراجیت اور سرمایادارانہ کی بنیاد اپنی منافع کی ہوس کے لیے دنیا پر اپنا قبضہ جمانا ہے۔
پاکستان ایک کثیرالاقومی ریاست ہے۔ جو بلوچ، سندھی، پشتون، سرائیکی اور پنجابی قوموں پرمشتمل ایک ریاست ہے اور پنجاب پاکستان کی اکثریتی قوم ہے۔ شروعات میں پنجابی حکمران طبقات اور ان کے فوجی ٹولے برطانوی سامراج کے نوکر تھے اور انہوں نے برطانوی سامراج سے تجربات حاصل کئے کہ کیسے قوموں کو غلام بنایا جائے اور برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی پالیسی جاری رکھی اور پاکستان میں سارے مظلوم قوموں کو غلام بنایا۔
یقیناً پاکستان میں طبقاتی تضادات کے علاوہ قومی تضادات نے شدت اختیار کی ہے۔ یہاں بلوچ قوم اور پاکستانی ریاست کے درمیان تضادات، سندھی قوم اور پاکستانی ریاست کے درمیان تضادات، پشتونوں اور پاکستانی ریاست کے درمیان تضادات اور گلگت بلتستان اور پاکستانی ریاست کے درمیان تضادات اہم اور بنیادی تضادات ہیں۔ اور ان کو حل کیے بغیر اس ملک میں امن لانا ممکن نہیں ہے۔
معروضی حالات اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان میں موجود تمام محکوم و مظلوم اقوام اکٹھے ہوکر ایک متحدہ محاذ بنا کر ہی اس ظالم ریاست سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ عوام کی طاقت اور ان پر اعتماد کر کے اور اپنی انقلابی پارٹی کی رہبری میں عوام کو لیڈ کرنے اور انہی منظم طریقوں سے ہی بلوچ، سندھی، پشتون اور سارے مظلوم اقوام اپنی آزادی حاصل کرسکتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔