بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کیچ میں عسکری تعمیراتی کمپنی فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اہلکاروں پر حملوں اور گرفتاری کے بعد پاکستانی میڈیا نے جو شورو غوغا شروع کرکے انہیں عام مزدور قرار دینے کی کوشش کی وہ قابل مذمت ہے۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر بلوچ فرزندوں کی شہادت پر تماشائی کا کردار ادا کرنے والی میڈیا نے اچانک بلوچستان کی اِن خبروں کو لیکر جھوٹا پروپگنڈہ شروع کیا ،جس میں بی ایل ایف کی جانب سے ایک ایف ڈبلیو او ورکرکو کم عمری کی بنا پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ پاکستانی ایجنسی اور میڈیا نے چھوڑے گئے علی حیدر کے ہاں پہنچ کر بلوچ قوم کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے شروع کئے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ہم نے کم عمر لڑکوں کو انسانیت کی بنیاد پر رہا کیا ہے۔ اس سے پہلے ضلع کیچ ہی کے بالگتر میں 19 دسمبر2015 کو سرمچاروں نے ایف ڈبلیو او پر حملہ کرکے ایک ڈمپر کو جلا کر آپریٹر گل زمان ولد میر نواز سکنہ ٹانک وزیرستان کو گرفتار کیا مگر کم عمر ہونے کی بنا پر اسے رہا کرکے کرایہ وغیرہ دیکر اسکو اپنے گھر روانہ کر دیا اور لوگوں کو خبر دار کیا کہ اپنے کم عمر بچوں کو پاکستانی فوج کے کہنے پر بھرتی نہ کریں۔ ہماری تنبیہ کو پاکستانی میڈیا سمیت پاکستانی عام لوگوں نے بھی نظر انداز کرکے نہ صرف سی پیک منصوبے پر کام کیلئے آئے بلکہ ایک دفعہ پھر کم عمر لڑکوں کو بھی بھرتی کرا دیا۔ سیالکوٹ کے علی حیدر کو بھی کم عمری کی بنا پر رہا کر دیا ،مگر پاکستانی ایجنسی اس کا غلط استعمال کرکے دوسرا رنگ دے رہے ہیں۔ بصورت دیگرسینکڑوں سرمچاروں کی موجودگی میں بلوچستان کی پہاڑیوں سے کوئی نہیں بھاگ سکتا۔ یہ پہاڑ گوریلا جنگجوؤں کی جنت ہیں جہاں پاکستانی فوج اور جنگی جہازوں کو ناکامی کا سامنا ہے ،وہاں ایک کم عمر لڑکا ہماری مرضی کے بغیر کیسے جاسکتا ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اُسے انسانیت کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا تھا، کیونکہ ہم عالمی جنگی قوانین کے مطابق بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہماری جد و جہد اور پاکستانی ریاست کے درمیان یہی فرق ہے کہ وہ بلوچوں کے کمسن بچوں کو بھی اغوا کرکے لاپتہ رکھتا ہے اور ہم انہیں قانون کے مطابق رہا کر دیتے ہیں۔ اب علی حیدر اور اُس کے خاندان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ حقیقت کو سامنے لاتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر ہم حیران نہیں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ پاکستانی اداروں کے اشارے پر کیا گیا ہے۔
گہرام بلوچ نے مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کے روز آواران میں پیراندر گرائی کے مقام پر پاکستانی فوج کے مذہبی انتہا پسند گروہ مسلح دفاع کے کارندوں نے سرمچاروں کا راستہ روکنے کی کوشش تو سرمچاروں اور مسلح دفاع کے کارندوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں، جس میں مسلح دفاع کے ایک کارندہ کے ہلاک اور کئی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بعد میں پاکستانی فوج بھی مسلح دفاع کی مدد کیلئے پہنچ گئی اور عام آبادی کی طرف اندھا دھند مارٹر فائر کئے تاہم نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ جمعرات ہی کے روز ضلع آواران کے گیشکور ہور میں پاکستانی فوجی چوکی پر ایک فوجی اہلکار کو اسنائپر سے نشانہ بناکر ہلاک کیا۔ یہ چوکی ایک مڈل اسکول پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ یہ حملے بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گے۔