دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں
بتانے والوں نے بتایا کہ پورٹ کی آمدنی میں 95 فیصد چین کا اور محض پانچ فیصد ہمارا ہے۔ ہم تو اس پہ ماتم کریں گے ہی مگر یہ بھی یقین ہے کہ ہمارا خدا ابھی مکمل طور پر چین کی طرف نہیں ہوا ہے۔ اسی لیے گوآدر اپنی تمام تر موزونیت کے باوجود ایک پورٹ نہ بن سکا۔ افلاطونی دماغوں نے اپنی طرف سے تو 1993ء میں یہ پراجیکٹ منظور کیا تھا۔ 2002ء کو اِس پراجیکٹ کا افتتاح بھی ہوا۔ 2007ء کو گوادر پورٹ کا افتتاح ہوا۔ اسے ٹرانزٹ ٹریڈ، ٹرانس شپمنٹ کے بطور تصور کیا گیا۔ اب وہارف کا 600 میٹر تعمیر بھی ہوچکا۔ تقریباً 14 میٹر گہرا کھدائی کیا ہوا۔ اسے اگلے پانچ سال میں 900 کلومیٹر تک بڑھانے کا منصوبہ بھی ہے۔
پھر، یہ پروگرام بھی ہے کہ اس پر ماڈرن پورٹ کا انفراسٹرکچر بھی تیار ہوتا جائے، جس میں سٹوریج، ویئر ہاؤس وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ہوٹل، موٹل، ٹریول اینڈ ٹورازم کا فروغ ضروری ہوجاتا ہے۔ صنعتی شعبے میں سمندری خوراک کا پراسسنگ اور ایکسپورٹ، کھجور کی پراسسنگ اور برآمد بہت منافع بخش ہوگا۔ دفاتر اور رہائشی تعمیرات کا طوفان آنا تو یقینی بن جاتا ہے۔
بھئی کوئی مانے یا نہ مانے اصل مقصد تو گوآدر بندرگاہ کو اپنانا تھا۔ وہ (اُن کی نظر میں) ہوگیا تو گویا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔ دوسری بڑی خواہش معدنیات بھرے بلوچستان کو گوادر پورٹ سے ملانے کی ہے۔
مگر کون یہ راز فاش کرے کہ دلہن گوادر، پیدائشی لنگڑی ہے۔ کون عقل مندوں کو بتائے کہ سہاگ رات ہی کو یہ ڈائن بن جاتی ہے۔ اس نے جب اپنے مالک کو کہیں کا نہ چھوڑا یہ دوسروں کو کیا چھوڑے گی۔ پرتگالیوں نے اُسے، اور اس نے پرتگالیوں کو تار تار کیا، مسقطیوں نے اسے اور اس نے انہیں نوچا دبوچا، انگریز نے اسے چیچک لگایا تو اس نے انہیں حتمی بونے پن کی بدعا پھونک دی۔ سنگاپور والا سیٹھ اپنے سایہ دار ہیٹ اور سگار لٹکے منہ کے ساتھ آیا، اُس نے گوادر کی اور گوادر نے اُس کی شکل بگاڑ کر رکھ دی۔ اور اب چین کی باری ہے ………… دیکھیں!!۔ کسے یقین نہیں کہ زمانے نے راکھشس کو زخم اور درد میں کراہتا چنگھاڑتا ابھی دیکھنا ہے۔
بلوچی زبان کی ضرب المثل ہے کہ ”بدبخت کے ریوڑ میں بھیڑیا گھس جاتا ہے اور خوش قسمتوں کو اُس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ علاقے میں بھیڑیا موجود ہے“۔ مندرجہ بالا بدبخت لوگوں کو گوادر نے چبا ڈالا تو خوش قسمتوں کو پتہ چلا کہ یہاں سرمایہ کاری خطرناک ہے۔ تاجر کو تو منافع چاہیے ہوتا ہے، فوری اور یقینی منافع۔ اور یہ گوادر نہ ”فوری“ منافع دیتا ہے نہ ”یقینی“ منافع۔ اسی لیے امریکہ اور یورپ یہاں سرمایہ کاری نہیں کررہے۔
مگر اندھا معاشرہ اندھے کام کرتا ہے۔ دیکھیے ناں پورٹ بنا تھا وسطی ایشیا کی مارکیٹ کے لیے، مگر وہاں تک نہ سڑک بنائی گئی اور نہ ریلوے۔ لہٰذا گوادر ایک مفلوج شو پیس کے بطور سرمایہ داری نظام کا منہ چڑانے موجود ہے۔ وہاں پہ مستقبل قریب میں بلوچ پرولتاریہ کی تشکیل کا پراسیس شروع ہونے کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔
اے بابو لوگو! گوادر کو دبئی بنانے کے لیے سڑک اور ریل چاہئیں۔ وہ کم بخت بن نہیں پارہیں۔ انہی سڑکوں ریلوں کو دالبندین اور وہاں سے ایران اور پھر وسطی ایشیا تک جانا تھا۔ یوں سرمایہ داری نظام کا ایک اور سرکٹ بن جاتا۔ مگر سرمایہ داری نظام تو، لگام ٹوٹے گھوڑے کی طرح بد نظم و خود سر ہے۔ چین امریکہ سے تمام تر یاری اور اتحادی گیری کے باوجود، معاشی بقا کے لیے اُس سے مقابلہ میں ہے۔ دبئی گوادر سے کہنی بازی میں لگا ہوا ہے۔ چاہ بہار گوادر سے خاموش خاموش مسابقت میں ہے، بھارت الگ مفادات رکھتا ہے ……
ریل اور سڑک صرف جغرافیائی مسائل والے ہوتے تو شاید بن جاتے۔ مگر یہ تو سیاسی بھی ہیں۔ اس لیے بغیر گفت و شنید کے، بغیر سمجھوتہ کے کیسے بن پائیں گے۔
اور اگر بن گئے بھی تو بدمزگی تو رہے گی ہی۔ اور قوموں کی بدمزگی فرد کی بد مزگی سے بہت شدید بہت گھمبیر ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سارے باہم مخاصم سرمایہ دار ممالک ایک بھی ہوجائیں، اورطویل بلوچ بغاوت کو پالتو بھی کرلیں تب بھی اس قدر طویل اور کٹھن و دشوار علاقے میں سے، او ر بلانوش مون سون سے بچتے بچاتے سڑک ریل بنانے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔
سنٹرل ایشیا تک ریل، روڈ بنانا جب نہ ہوا تو سمجھو پورٹ بے کار ہے۔ جی ہاں بے کار ہے۔
ہنسی آتی ہے جب بلوچستان کے باہر کے سرمایہ داروں کے مفادات کو بلوچستان کا مفاد قرار دیا جاتا ہے۔ سڑک اور روٹ کے اوپر بلوچستان و خیبر پختونخوا ہ کے کچھ ٹی وی اینکرز، اور مذہبی اور لسانی پارٹیاں نواز شریف کی پنجاب پرست حکومت سے زبردست تنازعے میں ہیں۔ یاروں نے گویا گوادر ہڑپ کر بھی لیا۔ اور اب محض اس کی مردہ لاش لے جانے والی روٹ پہ بحث مباحثہ جاری ہے۔ لاش برداری پہ پیسے کمانے کے لیے ٹی وی چینلوں پہ چیخ و پکار، علاقوں کو ”ترقی“ دینے کی عرضیاں دھمکیاں۔ انہوں نے اپنے خیال میں گوادر چین کو کامیابی سے بخش بھی دیا، اور یار لوگ اب دنیا بھر کا سامان گوادر سے چین تک پہنچانے کا روٹ طے کررہے ہیں۔ ایک کہتا ہے حسن ابدال، کوہاٹ، ڈی آئی کوئٹہ، پنجگور گوادر والا راستہ ہو۔ دوسرا ایم 4,3,2 ملتان، راجن پور، حب اور وہاں سے گوادر جانا چاہتا ہے۔ تیسرے کی خواہش ہے کہ حسن ابدال سے موٹر وے کراچی، رتوڈیرو، خضدار، آواران، خوشاب گوادر ہو۔
”بھائی صاحب“ کا خیال ہے کہ وہ ریل کے ذریعے سنٹرل ایشیا تک اِن راستوں سے پہنچے گا:
1۔ گوادر‘ دالبندین (تقریباً 515 کلومیٹر)
2۔ گوادر قلات مستنگ …………(تقریباً625 کلومیٹر)
3۔ گوادر خضدار، ڈی جی خان، پشاور، طورخم
اسی طرح گوادر چین وہ اِس راستے سے جانا مانگتا ہے:
4۔ گوادر، ملتان، فیصل آباد، پنڈی، گلگت سے خنجراب کے ذریعے چین۔
طاقت ور کبھی انشا اللہ بولتا ہی نہیں!!
مگر اب تو ”فر ی اکنامک زونز“ کا سن کر دریائے سندھ کے اُس پار کے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں نے چین گوادر روٹ ہی پر اکتفا کرنے کا ارادہ باندھا ہے۔ ٹیکس سے آزاد فری اکنامک زون پنجاب میں بن جائیں تو اور مزے ہوں گے ناں!!۔
اِدھر، تقدیر مہدی پہاڑ کی بلند چوٹی پر بیٹھی زہریلی مسکراہٹ مسکرا رہی ہے۔ ساحل بلوچ کا، معدنیات بلوچ کی، اور گزرنے والا راستہ بھی بلوچ کا، اور اُس پر لڑرہے ہیں خارجی گدھ۔ ارے بھائی، گوادر کا روٹ بلوچستان ہی میں سے ہوکر گزرتا ہے۔چینی بھائی، گوادر کا قبضہ بے کار جب تک بلوچستان کا قبضہ نہ ہو۔ اور اکیسویں صدی میں قبضوں کا تصور محض عقل سے کھسکی ہوئی کوئی قوم ہی کرسکتی ہے۔ کیا وہ اس بات میں کامیاب ہوں گے کہ ہم اچانک مالک نہیں رہیں گے بلکہ اُس کے ”روٹ“ کی مینڈکوں، کتوں، گدھوں کے گوشت کے حفاظتی لیویز والے ہوں گے؟۔
کسی نے مجھے بتایا کہ یہ بندرگاہ تب ہی خود کفیل اور مکمل ہوجائے گی جب ہفتے میں 21 کمرشل بحری جہاز یہاں آئیں۔ اور تصور کریں کہ ہر ہفتہ 21 دیو ہیکل بحری جہاز جو سامان لائیں گے لے جائیں گے، اس کے لیے حکومت اور سرزمین کتنی تیار ہے؟۔ چیونٹیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں ٹرالروں کنٹینروں کی۔ سڑکوں کی نہیں شاہراہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض شاہراہوں کی نہیں مصروف ترین ریلوے لائنوں کی بھی۔
اسی طرح ملک میں گھر کا بلب جلانے کو بجلی نہیں ہے۔ جب کہ ایک پورٹ 24 گھنٹے کی بجلی اور وہ بھی وافر بجلی مانگتا ہے۔ گنڑیش دیوتا لاؤ، یا شاؤ لین کا پورا جوڈوکراٹے والا لشکر، یا جوج ماجوج لاؤ یا چین کے سارے تصوراتی راکھشس جمع کرو۔ ساری دنیا کی بلائیں اکٹھی کرو لاؤ مگر بقول شہ مرید گوادر نامی ”ہندو مسلمان نہ ہوگا“۔ واللہ اعلم بالصواب۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔