انصاف کی لاش
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
دس ستمبر 2020 کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں پل چوٹو کے مقام پر ایک مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ ویرانے میں مدفن یہ لاش حالیہ طوفانی بارشوں کے باعث منظر عام پر آئی تھی۔ لاش کو شناخت کیلئے پرنس فہد ہسپتال لیجایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ لاش کم از کم تین سال پرانی ہے اور اسے سینے اور ٹانگ میں تین گولیاں ماری گئی ہیں۔
یہ لاش اس حد تک مسخ ہوچکی تھی کہ ڈھانچے میں تبدیل ہوچکی تھی، آخر کار لواحقین نے لاش کی شناخت دفنائے گئے جگہ پر پائے گئے جوتوں، کپڑوں پر لگے درزی کے ٹیگ اور دانتوں کی مخصوص نشانی سے کرلی۔ مقتول کی شناخت حفیظ اللہ ولد رحیم محمد بلوچ کے نام سے ہوئی۔ 2018 کو انکے بھائی نعمت اللہ کے ایک پریس کانفرنس کے مطابق انکے بھائی حفیظ اللہ کو 30 اگست 2016 کو پاکستانی آرمی نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔
تاہم کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرے کے دوران مقتول حفیظ اللہ کی والدہ نے یہ انکشاف کیا کہ انکے بیٹے کی رہائی کے بدلے ایک آرمی میجر نے ان سے ستر لاکھ کا تاوان طلب کیا ہے، انہوں نے مذکورہ میجر کی شناخت میجر نوید کے نام سے کی۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ یہاں وہاں سے پیسے جوڑ کر تاوان کی رقم آرمی میجر کو ادا کرنے کے باوجود انکے بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا۔
جب یہ واقعہ میڈیا میں اچھلا تو پاکستان آرمی نے اس معاملے کی اندرونی تحقیقات کی جو میجر نوید کے کورٹ مارشل پر منتج ہوئی۔ فیلڈ کورٹ مارشل کے دوران اپنے اختیارت کے غلط استعمال کا جرم ثابت ہونے پر میجر نوید کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اگست 2019 کو پاکستان آرمی کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ نے فیلڈ جنرل مارشل کورٹ کی دی ہوئی سزا کی توثیق کی ہے۔ ان سب کے باوجود مغوی حفیظ اللہ کو پھر بھی قتل کردیا گیا اور انکے اہلخانہ سے ستر لاکھ تاوان بھی وصول کیا گیا۔
پاکستان کے قومی میڈیا نے اس پورے دلسوز واقعے پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، اور کوئی میڈیا شخصیت پاکستان آرمی سے یہ سوال پوچھنے کی جرئت نہیں کرسکتا کہ وہ اس واقعے کے تفصیلات بتائیں اور اٹھتے سوالات کا جواب دیں۔ اگر میجر نوید کو سزا ہوئی ہے تو اس پر جرم کیا ثابت ہوا ہے؟ کیا اسے صرف اغواء برائے تاوان کے جرم میں سزا ہوئی ہے، یا پھر انہیں قتل کے جرم میں سزا ہوئی؟ اگر فوج کو قتل کا معلوم تھا تو پھرحفیظ اللہ کے اہلخانہ کو اتنے سالوں سے اطلاع کیوں نہیں کی گئی؟
پاکستان آرمی پر وقتاًفوقتاً انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچستان میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن پاکستان میں کوئی بھی سویلین ادارہ جبری گمشدگیوں کے اس مسئلہ کو حل کرنے سے قاصر ہے، اور کھل کر اس کا ذمہ دار آرمی کو قرار دینے سے کتراتا ہے۔ پاکستان کے سول حکومت نے 2011 میں ایک کمیشن ” کمیشن آن انکوائری آف انفورسڈ ڈس اپیئرنسس” قائم کی تاکہ جبری طور پر لاپتہ افراد اور انہیں لاپتہ کرنے والے ذمہ داروں کا پتہ لگایا جاسکے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ کمیشن 2011 سے ابتک جبری گمشدگی کے داخل کیئے گئے 6752 کیسز میں سے 4642 کو خارج کرچکا ہے اور باقی 2110 کیس تادم تحریر زیر التواء ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ مذکورہ کمیشن ابتک ذمہ داران کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
ایک عالمی ادارہ ” انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس” جو کہ دنیا کے 60 نمایاں ججز اور وکیلوں پر مبنی ایک کمیشن ہے نے اپنے ایک حالیہ رپورٹ میں یہ سفارش پیش کی ہے کہ “سی او آئی ای ڈی” کو 14 ستمبر کو مدت پورا ہونے پر تحلیل کردیا جائے کیونکہ یہ اپنا مقصد پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔
حفیظ اللہ کا اہلخانہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستانی آرمی کسی سول حکومت یہ ادارے کو جوابدہ نہیں اور وہ ازخود گناہگاروں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں نہیں لیجاسکتے، اسلیئے انہوں نے مزید اس کیس کا پیچھا اب چھوڑ دیا ہے، اور چار سالوں میں پہلی بار وہ حفیظ اللہ کا انتطار نہیں کررہے ہیں، اب انکا انتظار ختم ہوچکا ہے۔