کوئٹہ میں لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

156

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4064 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھںے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ تربت اور حب چوکی سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

حب چوکی سے لاپتہ ناصر حسین ولد غلام حسین کے بھائی نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا اور بھائی کے جبری گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات میڈیا کو فراہم کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کو حب چوکی کے بلوچ کالونی سے ان کے گھر پر رات کے ایک بجے کے قریب پاکستانی فورسز نے چادر و چاردیواری پامال کرتے ہوئے حراست میں لیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ ناصر حسین کے چھوٹے بچے ہیں جبکہ ان کے والدین سمیت خاندان کے دیگر افراد ان کے گمشدگی کے باعث پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ہمیں ناصر حسین کا گناہ بتایا جائے اور عدالت میں انہیں پیش کرکے ان پر لگے الزامات پر قانونی کاروائی کی جائے۔

لاپتہ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور ان کی بیوی زرینہ بلوچ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ شبیر بلوچ کے گمشدگی کے حوالے سے ہم نے لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن میں پیشی دی ہے۔

سیما بلوچ نے بتایا کہ کمیشن میں پیشی کے موقع پر ہم سے پوچھا گیا کہ شبیر بلوچ کے گمشدگی کے گواہ کہاں ہے جس پر زرینہ بلوچ نے جواب دیا کہ میں خود چشم دید گواہ ہوں کہ شبیر بلوچ کو 25 افراد کے ہمراہ حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا بعدازاں باقی افراد رہا ہوگئے لیکن شبیر تاحال لاپتہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمیشن کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ آپ کیسے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز نے لاپتہ کیا گیا۔ جس پر جواب دیا گیا کہ پورے علاقے کو پاکستانی فورسز کی متعدد گاڑیوں نے محاصرے لیا اور وہاں سے پچیس افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا۔

سیما بلوچ نے کہا کہ چار سال کے عرصے سے ہم احتجاج کررہے ہیں لیکن شبیر بلوچ کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے، ہمیں بتایا جائے کہ وہ زندہ بھی ہے یا مار دیئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر شبیر بلوچ پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے صفائی کا موقع دیا جائے لیکن اس طرح کسی کو لاپتہ کرکے ان کے ساتھ پورے خاندان کو کرب میں مبتلا کرنا کسی بھی قانون میں نہیں ہے۔

خیال رہے شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے جب انہیں 4 اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ بی ایس او آزاد اور ان کے لواحقین کا موقف ہے کہ شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

اس موقع پر لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کی قیادت کرنے والے وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکمران بلوچستان میں انستانی حقوق کی بدترین پامالی کا مرتکب ہورہے ہیں جس کا گھناونا مظاہرہ بدنام زمانہ پالیسی اٹھاو اور پھینکو پر عمل در آمد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کے تحت ہزاروں بلوچوں کو پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے اٹھاکر ریاستی حراست میں لیکر لاپتہ کرچکے ہیں جن میں نوجوانوں سمیت بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ حکومت بڑے طمطراق سے انصاف کا دعویٰ کررہی تھی لیکن بلوچستان کے پارلیمانی گروہ سانحہ تربت کے حیات بلوچ، گلناز بلوچ، کلثوم بلوچ، شاہینہ بلوچ کیس کو دبانے اور ان کے ذمہ داروں کی نشاندہی سے پہلو تہی کررہے ہیں۔