ایک اور درد بھری کہانی – عدیل حیات بلوچ

736

ایک اور درد بھری کہانی

تحریر: عدیل حیات بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں آج اپنے لئے لکھ رہا ہوں، اپنے خاندان کے لئے لکھ رہا ہوں، اپنے والدین کے لئے لکھ رہا ہوں، لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں نہ جانے کیوں کانپ رہے ہیں؟

اب مجھے ڈر سا لگتا ہے، لکھنے سے قلم ہار مان لیتی ہے۔ میرے دوست مجھے لکھنے سے منع کرتے ہیں کہ اس طرح سوشل میڈیا پہ لکھنا مناسب نہیں۔ میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ لکھو لیکن اپنا نام مت دو، کیوںکہ تم نام کے لئے نہیں قوم کے لئے لکھ رہے ہو۔ کچھ دوست کہتے ہیں کہ ضائ ع ہونے سے بہتر ہے کہ لکھو ہی نہیں، ہم پہلے سے بہت سے نوجوان گنوا چکے ہیں۔ فیملی ممبرز کہتے ہیں کہ لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، مت لکھو اور ہمیں چین کی نیند سونے دو (حکومت کی طرح)۔

پہلے میں نے لاپتہ افراد کے لئے لکھنے کی کوشش کی، پھر آھوگ گل کے لئے’ پھر کتابوں کے لئے’ پھر حیات بلوچ کے لئے’ بلوچستان کے لئے’ اب؟

تازہ اطلاعات کے مطابق تربت میں آرٹسٹ و پی ٹی وی بولان کے اینکر پرسن شاہیبہ شاہین کو قتل کیا گیا، آخر ہم کب تک لاشیں اٹھائیں؟ کب تک لکھیں؟

اب کی بار میں شاہینہ شاہیں کے لئے لکھنا نہیں چاہتا، اس قلم کی سیاہی اب ایک سفید کاغذ پہ لکھنے کے لئے تیار نہیں، اب کی بار یہ قلم ہار مان چکی ہے۔ اس قلم کی سیاہی اب ختم ہوچکی ہے۔

جو دوست کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پہ لکھنا مناسب نہیں، ان سے گذارش ہے کہ مجھے بتائیں میں کہاں لکھوں؟ کیوںکہ لکھنا تو ہے مجھے نہیں پتہ کیوں لیکن ہاتھ لکھنے پہ مجبور کرتے ہیں؟ قوم کے لئے لکھنے کے علاوہ اور کوئی موضوع نہیں بچا اور رہی بات نام کی تو نام کے لئے بلوچستان میں کچھ نہیں بچا۔۔۔

کام تو کرنا ہے” لکھنے کے علاوہ اور کوئی رستہ ہے؟ موت تو آنی ہے، قدرتی یا حیات بلوچ کی طرح’ کیا حیات نے کبھی کچھ لکھا تھا یا کسی کے بقول ان کے حکومت مخالف سرگرمی میں شامل تھا؟ میرے پاس لکھنے کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں اور اس ملک میں کیا ابھی آپ چین کی نیند سو رہے ہو؟ اب آتے ہیں اس موضوع پہ کہ میں اپنے اور خاندان کے لئے کیوں لکھ رہا ہوں؟ کل شہید حیات کی لاش ملی’ آج شاہینہ شاہین کی’ کل میرے خاندان کو میری لاش ملے گی شاید۔ لاپتہ یا کسی پہاڑی کے کونے میں، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، حکومت جو تبدیلی لا چکی ہے؟ خدا جس نے ہر کسی کی موت اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوتی ہے (بلوچ کے لئے شاید شہادت ہی لکھی ہوئی ہو قدرتی موت نہیں)

اب میں لکھنا نہیں چاہتا لیکن قلم کی سیاہی اب تک ختم نہیں ہوئی، اس لئے قلم اب تک چل رہی ہے اور شاید موت کے دہانے پہ کھڑی ہوئی ہو۔ اس لئے قلم اب تک شاید آخری سانسیں گن رہی ہو، اور یہ (قلم) اب ان(بلوچوں) کو صرف یہ بتانے کے لئے لکھ رہا ہو کہ لاشیں اٹھائیں گے اور احتجاج کرتے جائیں گے یا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔