بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4061 دن مکمل ہوگئے۔ وومن ڈیموکریٹ فرنٹ کے عصمت شاہ جہاں، عالیہ بخش، ماروی لطیفی، جلیلہ حیدر اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی عدالتوں اور تھانوں میں مقدمات کے اندراج کے علاوہ انصاف کے دعویدار تمام ریاستی اداروں، حکومتی ایوانوں سے بھی رجوع کیا گیا لیکن اب تک اس کا نتیجہ صفر نکلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو بلوچوں کی ماورائے قانون جبری اغواء نما گرفتاریوں اور تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ تھم سکا ہے اور نہ ہی ان اندوہناک واقعات پر ذمہ دار ریاستی کارندوں اور ان کے زرخریدوں اور حواریوں کے خلاف کوئی عملی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ بلکہ سارا زور لفاظی پر دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اپنی تر لفاظی کے باوجود بلوچ کش ریاستی کاروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کررہی ہے جس کے لیے انسداد دہشتگردی کے نام سے نت نئے قوانین متعارف کیئے جارہی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے ماضی کے بیانات اور وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین اور ورثاء کے کرب اور بے سکونی میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ قوم گہرے صدے سے دوچار اور سراپا احتجاج ہے مگر حکومت سمیت میڈیا اور سیاسی، مذہمی جماعتیں نام نہاد سوسائٹی اور ادبا و دانشور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔