نئے پاکستان میں قاتلوں کو ستارہ شجاعت – شبیر حسین طوری

370

نئے پاکستان میں قاتلوں کو ستارہ شجاعت

تحریر: شبیر حسین طوری

دی بلوچستان پوسٹ

‏حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ کفر سے حکومت چل سکتی ہے، مگر ظلم سے نہیں۔ یہ فرمان ہم اکثر و بیشتر اپنے سیاسی رہنماؤں سے سنتے آ رہے ہیں، خصوصاً عمران خان گذشتہ حکومت میں حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران بکثرت استعمال کیا کرتے تھے لیکن کل کا یہ مسیحا آج قوم کے لئے آمر بن کر ابھرا ہے اور ماضی میں جن غلط واقعات پر اعتراض کیا جاتا تھا، آج اسی نقش قدم پر چلا جا رہا ہے۔

‏گذشتہ حکومت میں عمران خان نے دھرنے کے دوران مسلم لیگ ن پر سب سے زیادہ تنقید سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور پر کی گئی اور اس المناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے کیونکہ اس واقعہ میں ریاستی سرپرستی میں عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ عمران خان نے تب وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر پنجاب پولیس کو نا صرف غیر جانبدار بنائیں گے بلکہ پولیس کو عوام کے لئے ایک خدمت گار ادارہ بنائیں گے جبکہ ماڈل ٹاؤن واقعہ میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنا دیں گے۔ عمران خان کی انہی چکنی چپڑی باتوں پر یقین کرتے ہوئے عوام نے بھروسہ کیا اور انہیں اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا گو کہ اقتدار کسی اور وساطت سے حاصل ہوا مگر پنجاب کی عوام نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔

‏اقتدار ملتے ہی وزیراعظم صاحب کی گویا یاداشت ہی کھو گئی اور وہ ایک ایک کر کے سب وعدے بھولتے چلے گئے بلکہ اپنے ہی وعدوں کے خلاف عمل کرتے نظر آئے۔ ماڈل ٹاؤن قتل عام میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے الٹا ان افسران کو اہم عہدوں سے نوازا گیا۔

‏چلیں وہ واقعہ نا ہی عمران خان کی حکومت میں ہوا اور نا ہی ان کی جماعت کے کارکنان کے ساتھ ہوا، شاید اس لئے عمران خان نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی مگر حکومت ملنے کے کچھ عرصہ کے بعد ہی سانحہ ساہیوال جیسا انتہائی افسوسناک بلکہ خوفناک واقعہ پیش آیا، جس میں سرعام مصروف شاہراہ پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی طرف سے ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے، جس میں ایک بچی سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے جبکہ تین کمسن بچے بھی زخمی ہوئے۔

‏اس واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آتے ہی پاکستان سکتے میں آ گیا کہ ہمارے ہی محافظ کس طرح آزادی سے بلا خوف ہمارا ہی قتل عام کرتے نظر آئے ہیں۔ جب عوامی دباؤ بڑھا تو حکومت کی طرف سے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا گیا، کمیٹی بن گئی، معطلیوں کا دور شروع ہوا اور بڑے بڑے دعوے کئے جانے لگے کہ ملزمان کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ وزیراعظم صاحب نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ قطر کے دورے سے واپس آ کر سخت ایکشن لیں گے لیکن واپسی کے بعد سب اچھا ہوتا چلا گیا۔

‏پولیس نے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے کمزور ایف آئی آر درج کی، شواہد اکٹھے کرنے میں کوتاہی برتی گئی، گواہان نے گواہی دینے سے معذرت کر لی یا ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ جس کا نتیجہ وہی نکلا جو پاکستان میں ایسے سرکاری قتل عام کا نکلتا ہے کہ ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں اور الزام عدالت پر آجاتا ہے کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا۔

‏بات اگر ختم یہیں ہو جاتی تو یہ واقعہ شاید اتنا بڑا سانحہ نا کہلاتا لیکن معاملہ اس بھی سنگین ہے کہ اس سال یوم آزادی کے موقع پر سانحہ ساہیوال کے مرکزی ملزم ایس ایس پی آپریشن سی ٹی ڈی ساہیوال جواد قمر کو حکومت کی جانب سے ستارہ شجاعت سے نوازا گیا ہے۔ عمران خان سے بحیثیت پاکستانی شہری میرا سوال ہے کہ آخر جواد قمر نے اس سال ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے، جس پر حکومت کو اعزاز سے نوازنا پڑا؟ اب اگر ماضی میں کوئی کارنامہ سر انجام دیا تھا تو تب ہی اعزاز سے کیوں نہیں نوازا گیا اور اب جبکہ جواد قمر سانحہ ساہیوال کا مرکزی ملزم تھا اور گاڑی پر فائرنگ بھی اسی کے حکم سے کی گئی تو پھر ایسے شخص کو اعزاز سے نوازنے کی کیا مجبوری تھی۔

‏کراچی میں جب ایس ایس پی راؤ انوار کی طرف سے نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تو اس واقعہ پر سب سے زیادہ احتجاج پاکستان تحریک انصاف نے ہی کیا تھا اور اس واقعہ کو سندھ حکومت کے ساتھ براہ راست جوڑا گیا۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ کراچی میں مخالف سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو بدنام کرنا اور دوسرا پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کا راؤ انوار کے ساتھ ذاتی جھگڑا ہونا تھا۔

‏راؤ انوار گرفتار ہوا اور آج تک پیشیاں بھگت رہا ہے اور کیریئر پر بدنامی کا داغ بھی لگ گیا حالانکہ نقیب اللہ محسود کو نا ہی عوامی مقام پر قتل کیا گیا اور نا ہی اس قتل کی کوئی ویڈیو منظر عام پر آئی مگر سانحہ ساہیوال پوری قوم نے دیکھا لیکن اس کے باوجود نہایت خاموشی کے ساتھ سانحہ کے مرکزی کردار کو ستارہ شجاعت سے نواز کر قوم کو بتایا گیا کہ اس ملک میں عوام کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

‏عمران حکومت میں اگر جعلی پولیس مقابلوں میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود عدالتیں قائم کر کے سزائیں دینا قابل تعریف عمل ہے تو پھر صرف جواد قمر ہی کیوں؟ راؤ انوار کو اس سے بھی بڑا انعام دینا چاہئے۔ عابد باکسر کو بھی قومی ہیرو قرار دینا چاہئے اور بلوچستان میں حیات بلوچ کو رسیوں سے باندھ کر مارنے والے ایف سی اہلکار شاہدی اللہ کو بھی شاباش اور انعام دینا چاہئے کیونکہ ان سب نے وہی کارنامے سر انجام دیئے جس کارنامے کی بنیاد پر جواد قمر کو قومی ہیرو قرار دیا گیا ہے۔

‏کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی نسل پرستی کی جا رہی ہے کہ جو قتل عام پنجاب میں ہوا، اس کے ملزم کو تو انعام دیا گیا اور جو قتل سندھ یا بلوچستان میں ہوئے، ان کے قاتلوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر دوسرے معاملات میں انصاف نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم اس معاملہ میں تو انصاف سے کام لیا جائے کہ پنجابی کے قتل پر قاتل کو ستارہ شجاعت جبکہ پشتون اور بلوچ کے قاتلوں کو ذلیل و رسواء کیا جائے۔

‏اس سے قبل سیکیورٹی اداروں کو اس بات کا یقین تھا کہ اگر وہ کسی بیگناہ شہری کو قتل کر بھی دیں تو قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بس بدنامی کا داغ ساری عمر ساتھ رہے گا مگر اب ان کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر آپ قومی ہیرو بننا چاہتے ہیں تو کسی بیگناہ کو بچوں سمیت مار دیں اور ریاست آپ کو اس ظلم پر خصوصی اعزاز سے نوازے گی۔

‏پاکستان اب جنگل بنتا جا رہا ہے، جہاں عوام شکار ہیں اور سیکیورٹی ادارے شکاری ہیں جو اپنے نشانے کا مقابلہ کے لئے شکار کرکے انعام پاتے ہیں۔
‏اس لئے عوام کو چاہئے کہ آپ نہایت عاجزی کے ساتھ سیکیورٹی اداروں کے سامنے اپنا سر پیش کر دیا کریں تاکہ وہ اعزاز کے معیار پر پورا اتر سکیں ورنہ انہوں نے پھر بھی وہ سب کچھ کرنا ہی ہے بس فرق یہ ہو گا کہ جو وہ اپنی مرضی سے کریں گے، اس میں آپ کے ساتھ آپ کے پیارے بھی مارے جائیں گے۔ جواد قمر کو پاکستانی قوم کی طرف سے ستارہ شجاعت مبارک ہو، اس نے واقعی بیگناہ معصوم بچوں پر گولیاں چلا کر شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔