مہران مری اہلخانہ سمیت گرفتاری، بلوچ کاز کی عالمی سطح پر سفارتکاری؟ – برزکوہی

978

گذشتہ دنوں زیورخ ایئرپورٹ پر قوم پرست رہنما نواب خیربخش مری مرحوم کے صاحبزادے مہران مری اور اسکی اہلخانہ کی گرفتاری اور بعد ازاں رہائی اور ساتھ میں ان پر سوئیٹزرلینڈ میں داخل ہونے پر دس سالہ پابندی کوئی پہلا واقعہ نہیں جب بیرونِ ممالک میں بلوچ انسانی حقوق کے الم بردار ممالک کے زیر عتاب آئے، اس سے پہلے حیربیار مری برطانوی حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ اس بابت بالکل واضح اشارے ملتے ہیں کہ یہ سب پاکستان کے سفارتکاری کی وجہ سے ہورہا ہے، جو کسی صورت بیرونی ممالک میں پاکستان مخالف کوئی آواز اٹھتا نہیں دیکھنا چاہتا۔

خیر دشمن سے اور کیا توقع ہوسکتی ہے، لیکن سوال یہاں بلوچ قیادت اور انکے سفارت کاری پر اٹھتا ہے کہ وہ اتنے سال عالمی برادری کے سامنے بلوچ مسئلے کو کس حد تک پہنچا سکے اور کس حد تک دنیا کو باور کراسکے کہ بلوچ ایک مقبوضہ ریاست ہے اور گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے ظلم کے چکی میں پس رہا ہے۔ اگر موثر سفارت کاری ہوچکی ہوتی تو پھر کیا یہ ممکن ہوتا کہ سوئیٹزرلینڈ جیسے ممالک پاکستانی درخواست کو درخورِ اعتنا سمجھتے؟ اب تک جتنی تھوڑی بہت حمایت اگر بلوچ کو ملی بھی ہے تو وہ بھی بلوچ کو محض ایک پریشر گروپ بناکر اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوا ہے۔ جب بھی ایک مظلوم قوم عالمی براداری کے سامنے اپنا مدعا پیش کرتا ہے اور اور حمایت کا مطلوب ہوتا ہے تو اس سفارتکاری کے کچھ اصول و قوائد اور تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ عمل بہترین ڈپلومیسی اور سیکریسی کے بَل پر ہی کامیاب ہوتی ہے۔ ایسے معاملات خفیہ ہوتے ہیں۔ لیکن بادی النظر یہ تاثر ملتا ہے کہ بلوچ قیادت پارٹی بازی، نمود و نمائش اور شہرت کی خاطر سفارت کاری کے اصولوں کو روند کر خود پاکستان کو اپنے خلاف ٹھوس جواز فراہم کررہے ہیں۔ جس طرح بلوچستان میں بہت سے جگہوں پر گوریلہ جنگی اصولوں یا انقلابی سرفیس سیاست کے تمام اصول نظرانداز ہونے کی صورت میں دشمن نے اسکا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہمیں نقصانات سے دوچار کیا۔ مثال کے طور پر یہ پہلا موقع نہیں کے بلوچ قیادت کے مابین ملاقات ہوئی ہو لیکن کیا وجہ تھی کہ اس بار 18 نومبر کے ملاقات کا ڈھنڈورا پِیٹ کر، اسکی پبلسٹی کرکے خود ہی آبیل مجھے مار کے مثال خود ہی مصیبت کو عوت دی؟ اسکی ضرورت کیا تھی ؟

اب تو دو ہی صورتحال نظر آتے ہیں کہ یا تو اب عالمی برادری بلوچ قومی تحریک کو پاکستان کیلئے ایک خطرے کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اس تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے پاکستان کا ہمکار ہونے کو ہیں اور جتنی تھوڑی بہت بلوچ تحریک کی حمایت کرتے بھی ہیں تو وہ محض ایک بلیک میلنگ کارڈ کی صورت میں پاکستان کو ڈرانے کیلئے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بلوچ قیادت مطمئین ہے اور تحریک جس نہج پر ہے وہ اسی پر ہی اکتفاء کرنا چاہتے ہیں کیونکہ چند گوروں کے ساتھ کسی کافی شاپ یا ریسٹورینٹ میں ڈنر اور گپ شپ کرنا سفارت کاری نہیں۔ انہیں اپنی ذات سے زیادہ توجہ بلوچستان میں موجود بلوچ قومی قوتوں کیلئے حصولِ امداد پر مبذول کرنا ہوگا۔ بلوچ نسل کشی اور بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو بھر پور اجاگر کرنے کے علاوہ باقی تمام سرگرمیوں کا گڑھ اور توجہ نمائش کے بجائے بلوچستان ہوتا تو پھر شاید آئیندہ مہران یو این کے اجلاسوں میں ایک نمائیندے کا حق نہیں کھوتا۔

جب لیڈر صاحبان، سرفیس لیڈری ، ہائی کمان ، سفارت کار ، ترجمان اور رہنما سب خود ہی ہوجائے اور ہر ادارے کو اپنے ذات میں پروئے رکھ کر خود ہی ادارہ بن جائے اور کسی بھی اور کارکن کو ناگوار سمجھ کر سب کچھ انکے دسترس سے باہر رکھا جائے تو پھر حالت ویسی ہوجاتی ہے جو اب بلوچ تحریک کی ہے۔ بلوچ کیس پہلےسے ہی عالمی سطح پر مفلوج دِکھائی دیتی ہے اگر روش نا بدلی تو حالت بھی نہیں بدلے گی۔

عالمی قوانین اور دشمن کی چالوں اور اسکے جوازوں کے تلاش کو مد نظر رکھ کر ذمہ داریوں اور سرگرمیوں کو تقسیم کرنا اور بلوچ سرزمین پر تحریک کی مضبوطی پر خاص توجہ دینا ہی کامیابی کےدروازے کھول سکتا ہے بصورت دیگر اگر ذمین پر تحریک کمزور ہوگی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کے ہر خواہش پر عالمی براداری عمل کرتی نظر آئے گی۔ اب یہ بلوچ قیادت کی دور اندیشی پ رمنحصر ہے کہ وہ کیا سوچتا ہے۔