سوشل میڈیا اور ہمارا استعمال – قندیل بلوچ

235

سوشل میڈیا اور ہمارا استعمال

تحریر: قندیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سوشل میڈیا اس وقت مظلوم اور محکوموں قوموں کے لئے ایک موثر آواز سے کم نہیں، اسکے استعمال میں فوائد اور نقصان دونوں شامل ہیں۔ جس کو اپنے فوائد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، وہ اس سے فائدہ حاصل کرتا رہتا ہے لیکن جس کو کوئی شعور نہیں وہ صرف سوشل میڈیا کو وقت گذارنے کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے۔ اس کا استعمال کرنا شعور پر منحصر ہے جس کوشعور ہے وہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جس کو شعور نہیں وہ اس کے استعمال کرنے سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ بلوچستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ کئی سالوں سے پابندی عائد ہے، جس علاقے میں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے استعمال کر رہے تھے وہاں سوشل میڈیا کو سیکورٹی مسائل کا نام دے کر مکمل طور پر بند رکھا گیا ہے۔ آج بلوچستان کے جن علاقوں میں نوجوان سوشل میڈیا اپنے مسائل کو سامنے لانے کے بجائے ایک ایسے طریقے سے استعمال کر رہے ہیں وہاں دشمن کو نقصان سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے، وہاں اب تک بند نہیں ہے ۔ جس علاقے میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے فائدہ اور نقصان کا علم نہیں وہاں اب تک اکا دکا چل رہا ہے۔ لیکن ہمارے قوم کے بیشتر نوجوان اب تک یہ پہچان نہیں کر پائے کہ سوشل میڈیا کس طرح استعمال کرنا ہے، ہمارے قوم کے لئے فائدہ مند ہے اور کس طرح استعمال کرنا نقصان دہ ہے ۔

بڑے بڑے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہم فیس بک اور وٹس اپ پر دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ وہ دبئی میں کسی ریت کے ٹیلے پر بیٹھ کر اپنا تصویر کھینچ کر اس پر لائک اور شئر کا انتظار میں رہتا ہے ۔ اسے شاید اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ شعور نہیں ہوتا ۔کہ دبئی کے ریتوں کے ٹیلے پر میں فخر سے تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا میں شئر کرتا ہوں ۔ لیکن وہ چالیس پچاس سال کے بعد مجھ پر ریٹائر منٹ کا دھبہ لگا کر گھسیٹ کر اپنے ملک سے نکال دیتا ہے، پرائے کے اچھے ریٹ کے ٹیلے ہی دوسرے قوموں کو لوگوں کو ہی پرائے سمجھتے ہیں ۔ اصل وفادار اپنا سرزمیں ہوتا ھے۔ چاھے اس کے ریت کے ٹیلے پر گلی سڑی بدبو آ رہی ہو۔

بلوچستان میں ایسے پسماندہ علاقے ہیں، وہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں لیکن وائس فار مسنگ پرسنز کی بار بار اپیل کرنے کے باوجود وہاں کے لوگوں سے یہ نہیں ہوتا ہم اپنے لاپتہ علاقے کے بے گناہ لاپتہ افراد کے کیس کو وائس فار مسنگ پرسنز تک پہنچا دیں تاکہ وہ اسے انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے ثبوت کے ساتھ پیش کر سکیں، کوئی ثنوت کے ساتھ کہہ سکے فلاں علاقے سے فلاں آدمی گذشتہ اتنے عرصے سے جبری طور پر لاپتہ ہے۔

بلوچستان میں الیکٹرانک میڈیا اور صحافت پر پابندی گذشتہ کئی دہائیوں سے عائد ہے۔ جس علاقے میں سوشل میڈیا کی سہولت ہے، وہاں روزانہ ہزاروں مسائل جنم لیتے ہیں ۔لیکن ہمارے قوم کے بیشتر نوجوانوں کو یہ علم نہیں ہوتا علاقے کے مسائل کو دنیا کے سامنے لانے میں کوئی نہ کوئی عملی جہد کریں، آج ہر نوجوان کا یہ فرض بنتا ہے وہاں وہ اپنے علاقے کے مسائل کو چاہے لاپتہ افراد کا ہو، چاہے دوسرے سیکورٹی وجوہات کے مسائل ہوں، چاہے قدرتی آفات کے ہو، ہم سوشل میڈیا کا سہارہ لے کر اسے روکنے، دبانے سے بچا کر دنیا کے سامنے اجاگر کر سکتے ہیں۔ ہم شاید دوسرے ممالک، دوسرے قوموں تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں کم سے کم اپنے لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ضرور ہو سکتے ہیں ۔

بلوچستان کے پہاڑوں میں رہنے والے، مویشی پالنے والے بیچارے کو کیا پتا ہوتا ہے۔ میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان کس کو سناؤں، نہ اسے یہ پتہ ہوتا ھے سوشل میڈیا کیا ہوتا ہے، میں اسے دنیا کے سامنے لاؤں ہم کو سمجھ لینا چاہیے ایسے روز کے معمول پر ہونے والے واقعات دوسرے ممالک کے بجائے اپنے ملک میں دوسرے یوسی کے لوگوں تک پہنچا نہیں سکتا ۔ایسے واقعات کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے وہاں کے قریبی کسی باشعور تعلیم یافتہ کا فرض بنتا ہے وہ اسے دنیا کے سامنے لانے میں کوئی نہ کوئی عملی جہد کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔