ہماری نفسیات اور کتابیں ۔ سلمان بلوچ

444

ہماری نفسیات اور کتابیں

تحریر۔ سلمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہماری تعلیمات اور ہماری نفسیات کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی معاشرے کو سیاسی یا غیرسیاسی حوالے سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اُس سے پہلے ہم خود کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کے لئے مطالعہ کرنا پہلا شرط تصور ہوتا ہے، ہم اخبارات پڑھتے ہیں، مختلف نوعیت کی کتابیں پڑھتے ہیں، تحقیقات کرتے ہیں، اور پھر نتیجتاً کسی حد تک خود کو حقیقت پسند سمجھنے پر مطمئن ہوتے ہیں، صحیح غلط میں تفریق کرپاتے ہیں ، تب ہمارے اندر احساسات کِھل اٹھتے ہیں، احساسات جو دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا سبب بنتے ہیں۔ مذید برآں انہی احساسات کو ہم دوسروں میں آہستہ آہستہ منتقل کرنے کی اشتیاق رکھتے ہیں تاکہ پوری مخلوق حقیقت اور دھوکے کو واضح سمجھنے کی قابلیت سے ہمکنار ہوسکے ۔

جب معاشرے میں احساس، ضمیر، مثبت سوچ برپا ہوجاتا ہے تو ہم ایک فلاحی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، جس میں تمام لوگوں کو یکسانیت کا اعتبار دلایا جاتا ہے، جہاں تمام لوگوں کو موقع میسر ہوتا ہے کہ وہ اپنے صلاحیتیں بروئے کار لاسکیں ۔ پر یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آئے روز ایک لبرل بن کر سامنے آتے ہیں، کسی استاد، پروفیسر یا خدمت خلق کی شکل ۔ کیا لوگوں کو تعلیم دینا کسی لبرل کا کام ہوتا ہے؟ لوگوں کی مفلسی اور ناخواندگی کا ازالہ لبرل کا کام ہے؟ لوگوں میں احساسات جگانا ، اُن کی ضمیر کو جگانا، ان کے نفسیات کو پرکھنا ایک لبرل کا کام ہوتا ہے؟ تو جواب شاید نفی میں ہوگا کیونکہ اگر ایک لبرل لوگوں کو تعلیم دیتا ہے، اصلاحات کے زریعے شعور دلاتا ہے لوگوں کو پسماندگی اور تاریکیوں سے نکالنے کی کاوشیں کرتا ہے تو موجودہ حکومت ، ایم پی اے ، ایم این اے ، نام نہاد سردار میر ٹکری وہ کس لئے ہوتے ہیں ؟ وزیر تعلیم وزیرِ اعلٰی ، وزیر اعظم کا کام اگر ایک لبرل کو ہی کرنا ہے تو پھر ووٹ اِن نام نہاد وجودوں کو کیوں؟

آج بلوچستان دنیا کا غریب ترین خطہ قرار دیا جاتا ہے۔ آخر بلوچ قوم کے پاس کِن وسائل کی کمی ہے؟ حکومت اگر تعلیم سے منسلک درپیش مسائل اور پسماندگی ختم نہیں کرسکتی تو اس میں قصوروار کون ہے؟ پھر جب کوئی استاد یا فلاحی انسان ناانصافیوں کو بھانپ کر سامنے آتا ہے تو انکو موت کے گھاٹ کیوں اُتارا جاتا ہے ؟ اگر اس مفلسی و ناخواندگی کو کوئی لیڈر ختم نہیں کرسکتا تو لبرل کو کیوں نہیں آگے آنے دیا جاتا ؟ قاتل کون ہے، کیوں ہے، ہمیں بھی پتا نہیں چلتا ۔ اگر قتلِ عام اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو لبرل سامنے آتے رہینگے اور مقتول بنتے رہینگے ۔

لبرل کون ہیں اور لبرل ازم کیا ہے ؟ اِن کے جوابات ہر کسی کو چاہیے۔ فرانسیسی انقلاب کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس نے سیاسی و سماجی تبدلیاں لائیں ، نظریات و افکار بھی جنم دیے ۔ فرانسیسی اسمبلی میں جو حضرات دائیں طرف بیٹھے تھے وہ قدامت پسندی کے حامل تھے اور جو بائیں طرف بیٹھے تھے وہ انقلابی ریڈیکل نظریات کے حامی تھے ۔ اسی وجہ سے سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کے اصلاحات اِن دونوں نظریات کا اظہار ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں میں قدامت پسندی اور ترقی پسندانہ نقطہ ہاۓ نظر کا فرق تھا۔ لیکن قومی لبرل قوم کو اندھیرے سے نکال کر جھوٹی حقیقت اور دھوکے سے نکالنے کیلئے خود کتنا تیار ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے ۔ قومی لبرل اصلاحات پر کام کرکے عوام کے نفسیات کے ساتھ ناصرف عوام کے نفسیات سے متضاد ہوکر کام کرتا ہے بلکہ سب سے پہلے انکے نفسیات کو پرکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن لبرل نفسیات کو کیسے پرکھتا ہے یہ اسکے تعلیمات کا حصول ہوتا ہے ۔

ہم ادبی تعلیمات حاصل کرکے لوگوں تک پہنچاتے ہیں انکو انقلاب کے عظیم حصول کیلئے آشنا کرتے ہیں ۔ بلکل آج اسی راستے پر خضدار نکل پڑا ہے ۔ خضدار میں کتابی پوائنٹ میسر ہوچکی ہے، جہاں ہر طبقات خصوصاَ طلبا آکے یہاں سے ادبی تعلیمات حاصل کرسکتے ہیں، خواہ وہ دینی تعلیمات ہوں یا دنیاوی ۔کسی قوم کو بدلنے اور اسے اصلاحات کی بنا پر تبدیل کرنے کیلئے ہمیشہ ہی ادبی تعلیمات پر غور کرنا ہوگا کیونکہ حقیقی شعور ادبی تعلیمات میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ کسی قوم کو بدلنے کے لئے ادبی تعلیمات حاصل کرنے ہونگے بذریعہ عمل انکو عوام تک منتقل کرنے ہونگے ۔ انقلابی شعور اس وقت شروع ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنی زمہ داریاں محسوس کرے۔ یہاں بلوچستان کے طلبا بلخصوص خضدار کے طلبا کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ طلبا طبقات کو انکی زمہ داریاں کیسے محسوس کرائیں گے؟ ناخواندہ طبقات مزدور طبقات جن کا وژن پتھر کے لکیر کی مانند ہے دو وقت کی روٹی اور پیٹ انکی عبادت ہے، ان تک یہ اصلاحات کیسے منتقل ہونگے ؟ طلبا تو کتابیں پڑھ کر شعور سے آشنا ہوتے ہیں لیکن سب سے خشک اور پُرکٹھن چیلنج مزدور اور ناخوانندہ طبقات کو شعور دلانے کا ہے۔ اگر مارکسزم، ہوچی منھ ، کنفیوشس کو پڑھتے ہیں تو ہم اردگرد ماحول میں ہونے والے ناانصافیوں اور پسماندگی کے وجوہات کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ساتھ ردعمل کیا ہوتا ہے؟ خاموش تماشائی بن کر سامنے آتے ہیں ۔ بقول کارل مارکس کتابیں صرف پڑھنے اور دلیل پیش کرنے کیلئے ہوتے ہیں مگر اصل شعور اس وقت برپا ہوتا ہے جب آپ ماحول کو سمجھتے ہیں ۔ ماحول کی نفسیات کو سمجھ کر آگے چلتے ہیں ۔ یہاں ہم کتابیں پڑھ کر صرف رٹا بازی ، فضول بحث و تنقید ، سرکل لگاکر ایک موضوع کو چھیڑ کر کسی قوم کو بدل نہیں سکتے اور نہ ہی کوئی قوم ایسے بدل سکا ہے۔ ہم خود کو ہی کتابوں کے زریعے بدل سکتے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آپ خود کتنے باکردار ہیں ، کتنا مخلص اور کتنا اعلی سوچتے ہیں ؟ کیونکہ ہر محفل میں بیٹھ کر فضول بحث و تنقید دوسروں کیلئے دردسر بن جاتی ہے ۔ اور پہلے یہ تو سمجھے کہ خود تنقید کیا بلا ہے ؟ اسکے کیا شرائط ہیں ، کب کہاں کیسے کرنی ہیں ، اور کہاں اسکی ضرورت ہے؟ تنقید ، مخالفت ، انسانی نفسیات کو سمجھے بغیر کوئی فتوی پیش کرنا کم سوچ اور خوامخواہ اپنے نیم دانشوری کا بلاجواز ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر تنقید اور بحث بغیر عمل اور نتیجہ کے ہو تو یہ ذہنی عیاشی اور وقت کا ضائع ہے ، آج بلوچستان کو اگر ضرورت ہے تو وہ عمل اور تحقیق کی ۔ انسان اور جانور کو سمجھنے کیلئے ان کے بیچ تحقیق اور خواہشات کو دیکھیں ، ضرور علم ہوجائے گا۔ کیونکہ انسان اور جانور میں فرق محض تحقیقِ مثبت سوچ کا ہے۔ جیسا کہ وٹاکرز کی درجہ بندی نے انسانوں اور جانوروں کو ایک ہی کنگڈم میں کیا ہے ۔ اب یہ اس انسان پر انحصار ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کو ترجیح دے ، یا ایک نیک وژن بناکر اپنے اور دوسروں کا مستقبل سنوارے ۔کیونکہ انسان خود ایک معاشرتی حیوان ہے ۔ جو اپنےمعاشرے کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے ۔ نہ ہی کوئی روایات ، ثقافت ، اور نہ ہی بات کرنے کا سلیقہ سیکھ سکتا ہے۔ تعلیمات حاصل کرنے، تحقیقات کرنے سے ہی سب سے بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے اور مسرت عمل سے مشروط ہے ۔

خضدار 2013 سے لیکر 2020 تک ایک ذندہ لاش ہی کی مترادف رہی ہے ۔ مگر اب خضدار کے کچھ طلبہ جنہوں نے تعلیم حاصل کی اور سماج کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ۔ آپ کو برمش کےلئے ہمدردی ہوئی، آپ نے اپنی ہمدردی کو عملی جامعہ پہنایا برمش یکجہتی ریلی نکالی ، آپ نے آنلائن کلاسسز کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کیا۔آپ نے ماہ رنگ اور شال کے طلبات کےلئے ریلی نکالی ۔آپ نے عمل ہی کیا احساس ہوا اور احساس کا نتیجہ عملاً ظاہر ہوا۔ خضدار میں آج کتابی پوائنٹ بن تو گیا ۔ ایسے کہیں واقعات بلوچستان کی تاریخ میں مدفن ہیں۔عطاءشاد ڈگری کالج کی مثال قابلِ زکر ہے جہاں بھگت سنگھ ، چی گویرا ، کاسترو اور کہیں ایسی حستیوں کی تعلیمات کی کتابیں موجود تھے۔ مگر ان کی تعلیمات کا کیا ہوا ؟ عطاءشاد ڈگری کالج پر چھاپہ پڑا اور کتابوں پر سنسرشپ لگی ، نقصان طلبا کا ہی ہوا۔ بلوچ طلبا وہ واحد طلباء ہیں جنہیں کتب بینی کی پاداش میں جیل جانا پڑا ۔ میں اُن تمام والدین کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے کی پاداش میں جیل اور زندانوں کی ذینت بنتے دیکھ کر صبر کا مظاہرہ کیا۔

بلوچ طلبا کتابیں پڑھ کر جیل زندانوں کی زینت بنے جبکہ جامعہ پنجاب کے طلباء جن پر چھاپہ پڑا تو ان سے شراب کی بوتلیں دریافت ہوئیں ، جب اسامہ بن لادن کے رہائش گاہ پر چھاپہ ہڑا تو فحش سی ڈی برآمد ہوئیں لیکن بلوچ طلبا جن پر چھاپہ پڑا انکے کمروں سے کتابیں ہی کتابیں برآمد ہوئے اور بلوچ طلباء کیلئے اس سے بڑی خوش قسمتی کی بات اور کیا ہوسکتا ہے۔

اگر خضدار کے دوست اس بُک پوائنٹ کو لُٹ خانہ کے نقشِ قدم پر لے جاتے ہیں جس نے گل خان نصیر ، شیر محمد مری ، عبداللہ جمالدینی ، آذات جمادینی ، شاہ محمد مری، اور نوائے بلوچستان کے کئی صحافیاں جنم دیے۔ جس سے زیادہ کتاب دوستی اور شاعری کی بلوچستان بھر میں کوئی مثال نہیں ہے، جہاں پر پشتون، سندھی اور تمام اقوام کے لوگ آکر کتابیں پڑھتے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم آپ کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کرکے اپنے ہی بُک پوئنٹ سے گُل خان نصیر اور آذات جمالدینی جیسے شخصیات پیدا کرسکتے ہیں کیونکہ علم کی اصل قیمت علم پر عمل ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔