سانحہ راجن پور اور بلوچ ادارے ۔ واھگ بزدار

490

سانحہ راجن پور اور بلوچ ادارے

تحریر۔ واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں مقبوضہ بلوچستان کے علاقے راجن پور سے پانچ لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، جن کو پنجاب پولیس نے دو طرفہ مقابلہ میں مارنے کا دعویٰ کیا ہے، جس کو ان کے خاندان والے اور کچھ بلوچ سیاسی جماعتیں جعلی مقابلہ قرار دے رہی ہیں کہ ان کے مطابق، ان کو مختلف شہروں سے اغوا کرکے ٹارچر کرنے کے بعد شہید کردیا گیا ہے. ان شہیدوں کے نام اور اغوا ہونے کی فہرست بھی بی آر پی کی جانب سے شائع کی گئی تھی، جن کے مطابق رمضان بلوچ کو پاکستانی آئی ایس آئی نے پٹ فیڈر کے علاقے سے گذشتہ سال جولائی میں زبردستی اغوا کیا تھا, ماسٹر علی بلوچ جو پیشے کے لحاظ سے ایک استاد ہے گذشتہ سال 6 نومبر کو راجن پور کے علاقے سے جبری طور پر اغواء ہوئے تھے, غلام حسین بلوچ کو فروری 2020 کو سندھ کے علاقے کندھ کوٹ سے اغوا کیا گیا, دوست محمد بلوچ کو 8 مہینے پہلے کراچی سے لاپتہ کر دیا گیا اور عطا محمد بلوچ جو کے علاجِ کے غرض سے بہاولپور گئے تھے ان کو بہاولپور سے لاپتہ کر دیا گیا اور ان تمام لاپتہ افراد کو 31 جولائی کو راجن پور میں پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

راجن پور جیسے سانحے پر بلوچ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کی خاموشی حیران کن ہے. اس حوالے سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کسی قسم کا کوئی آگاہی مہم کا آغاز نہیں کیا گیا جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جب میں نے تمام سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ویب سائٹ پر نظر ڈالی تو وہاں پر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا, جیسے کسی قسم کا واقعہ ہی نہ ہوا ہو۔

ایچ آر سی بی جیسے ادارے کا بنیاد ہی اسی پالیسی کے تحت رکھا گیا کہ وہ اس جیسے غیر انسانی حرکتوں کو دنیا بھر کے عوام تک پہنچانے کا کام کرے گا لیکن اس جیسے باقی مسئلوں پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے.

اس کے علاوہ باقی بلوچ سیاسی جماعتیں یعنی بی این ایم، بی ایس او آزاد ، ایف بی ایم جیسے آزادی پسند تنظیمیں جن کا بنیادی مقصد قومی مسائل کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح تک لانا اور ان جیسے واقعات کے خلاف قوم کو شعور دینا ہے. مذکورہ واقعے پر تمام سیاسی جماعتیں مکمل طور پر خاموش ہیں اور یہی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری جانب بلوچ ریپبلکن پارٹی ان مسائل کو سنجیدہ لے رہی ہے اور یہ عمل نہایت ہی خوش آئند ہے. اس جیسے سنگین مسئلے پر قوم اور باہر کی دنیا کو آگاہی دے رہی ہے لیکن وہ لبز بلوچ سے زیادہ بگٹی پر زور دے رہی ہے، جو ایک خاص سوچ کی عکاسی کررہی ہے۔

اس طرح کے واقعات کو پنجابی ریاست اور انکے دلال اپنے مفاد میں استعمال کر کے بلوچوں قومی تحریک کے خلاف استعمال کریں گے۔

بلوچ سماج ایک جنگ زدہ دور میں زندگی گذار رہی ہے اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑا واقعہ ہمارے سماج میں نہیں ہوا بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کے واقعات ہر روز بلوچ قوم پر اور بلوچستان کے دلبند پر ہو رہے ہیں لیکن وہاں پر ہمارے سیاسی جماعتیں مکمل طور ایک مشترکہ پلان بنانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔.

پنجابی ریاست جو ہمیں صرف بلوچ ہونے کے نام پر ڈیرہ جات سے لیکر جیونی تک دن دہاڑے لاپتہ اور قتل کررہی ہے جس کی واضح مثال گذشتہ سال ڈیرہ غازی خان کے علاقے سے پولیس نے عبداللہ اور حیدر بلوچ کو جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیاہے اور دوسری طرف کراچی کے علاقے سے 6 بلوچوں کو گرفتار کرکے ان کا تعلق براس سے ظاہر کردیا تھا اور ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا جن کا تاحال کوئی علم نہیں. ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سٹوڈنٹس ،وکیل، ڈاکٹر ،استاد اور زندگی کے دوسرے شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو شہید کر دیا گیا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں. لیکن دوسری جانب ہم ہیں کہ ہر کسی نے ایک ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر ایک خاص اور علاقائی سوچ کو پروان چڑھا رہیں ہیں.قوم کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دے پا رہی ہے اس طرح کے عمل سے نفرتوں کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہوگا اور ایسے عمل کو سیاسی رویہ نہیں کہا جاسکتا ہے. اگر ہمارے سیاسی عمل یہی رہا تو ہم ایک دوسرے کیخلاف نفرت کے سوا کچھ پیدا نہ کر سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔