شہید حئی جان سے جُڑی کچھ یادیں ۔ خالد بلوچ

839

شہید حئی جان سے جُڑی کچھ یادیں

تحریر ۔ خالد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نظریہ و فکر انسان کے کردار میں جب جگہ بنا لیتا ہے تو انسان کو عظیم مقام تک پہچان دیتا ہے، جب وہ زندہ ہوتا ہے تو گمنام و کٹھن راستوں پر سفر کرکے کردار کو بہترین بنا دیتا ہے، جب وہ شہید ہوتا ہے تو وہ امر ہو جاتا ہے، بلوچ جہد ایسے بہت سے کرداروں سے بھرا پڑا ہے، لیکن میں مختصر ایک سنگت سے جُڑی یادوں کو قلمبند کرنا چاہوں گا، جن کی خدمات بلوچ قوم و بلوچ نسل کے لیے ایک اثاثے سے کم نہیں کیونکہ ہم جب کسی سرزمین پر جنم لیتے ہیں. اسی وطن سے شناخت حاصل کرتے ہیں تو اُس دھرتی کی ننگ و ناموس کی حفاظت کا ذمہ بھی ہمارے اوپر ہوتا ہے. وطن کے سچے عاشق اپنی زمہ داریوں کا احساس رکھ کر اپنی جان تک وار دیتے ہیں-

شہید حئی عُرف نثار جان کے عظیم کردار کے حوالے سے شاید میرے الفاظ کم پڑیں یا میں وہ الفاظ تحریر نہ کر سکوں جن کا وہ حق رکھتے ہیں تو بشخنداری سنگت نثار جان-

نثار جان ایک مہربان بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم باپ کی حیثیت سے بھی ہماری پرورش کرتے تھے، جب تک وہ ساتھ تھے تو ہمیں دنیا کی کسی مشکلات سے ڈر نہیں تھا، بلکہ اب بھی نہیں ہے، کیوں کہ حیو کے فکر کو ہم نے تھامے رکھا ہوا ہے، حیو کا فکر ہمیں تنہا ہونے کا احساس نہیں دلاتا، ہاں یہ الگ بات ہے آج وہ جسمانی حوالے سے ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، گوکہ میں اُس وقت چھوٹا تھا. اپنے بہادر بھائی کو آنکھ بھر کے دیکھا بھی نہیں لیکن اُس کے دیئے ہوئے پُر مہر لمحوں میں ایک بہترین مستقبل پنہاں نظر آتا ہے، شہید مجید کے گذر جانے کے بعد دل میں تھوڑی سی گھبراہٹ محسوس ہوئی کہ شاید اب دوسرے بھائیوں کو بھی کھو دینگے، لیکن حیو نے کم وقت میں ایسی تربیت کی تھی کہ وہ خوف وہ گھبراہٹ مجھے صرف چُھو کر گذر گئی، کیوںکہ میں نے خوف کو اپنے نزدیک آنے نہ دیا، کیوںکہ میرے پاس حیو کی صورت میں تو حوصلوں کی ایک گَھنی چھاؤں تھی- حیو نے تو اپنی زندگی اس قوم کے بہترین مستقبل کے لیے وقف کردی تھی، لیکن وہ ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ ہم بھی بڑے ہو کر صرف وہی راستہ چُنیں، جس میں وہ خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کر چُکے تھے، شھید نثار جان چاہتے تھے کہ ان کے چھوٹے بہن بھائی چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہوں اپنے وطن کی مٹی سے محنت قائم کئے رکھیں. جب شہید نثار جان کی شہادت کی خبر ملی تو میرا سینہ فخر سے بلند ہوا کہ حیو تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوا وہ تو امر ہوگیا، ہمارے لیے حسین یادیں چھوڑ کر چلے گیا –

لیکن کم وقت میں ہی میں نے اُس کے نظریے کے ساتھ ایک نئی زندگی جینا شروع کردیا- جس میں صرف اسی راستے میں قربان ہونے والے ہر سنگت کے ساتھ محو گفتگو ہوکر حیو کی کمی کو پورا کرنا چاہ رہا تھا- جب ہجوم میں اُس کے دوستوں کے نزدیک ہوتا تو کچھ راحت محسوس ہوتی تھی، لیکن اکیلے میں کچھ لمحوں کے لیے کمزور پڑ جاتا تھا، کچھ تلخ یادیں، بابا کا بے گناہ شہید کیا جانا تڑپاتا تھا، مجید جان کی کم عمری میں بیگواہی و شہادت میرے ذہن میں کاری ضرب کی طرح وار کرتا تھا، کچھ ایسے اکیلے لمحات میرے حوصلے کو کمزور نہ کرسکے لیکن میرے کمزور دماغ کو کچھ متاثر کرگئے جس کی وجہ سے میری صحت پر برا اثر پڑا- لیکن جب بھی شہید حیو کی تربیت یا اُس کا دیا ہوا شعور میرے دماغ پر دستک دیتا تو ایک دم سے میں شہید حیو کو اپنے سامنے پاتا، اور یہی کہتے سنتا کہ ہمارے کردار کو ہم نے صرف عظیم بنایا ہے، لیکن ہمارے کردار کو عظیم ترین بنانے والے آپ ہو، آپ کو ان گہری چوٹوں کے اثرات کو تازہ رکھنا ہوگا، ان زخموں کو کُرید کرید کر ہرا بھرا رکھنا ہوگا تاکہ اس درد کی شدت میں کمی نہ آئے اور آگے قدم بڑھتے رہیں-

مجید جان و میری فکر کو سنہری منزل تک پہنچانے میں میرے سنگتوں کے ہمراہ رہنا ہوگا- تاکہ ہمارے بعد ہماری کمی کسی اور کو محسوس نہ ہو جس سے کوئی ہمدرد، سنگت، یا رشتہ دار کمزور پڑ جائے- بس آگے بڑھنا سیکھو، مشکلوں سے لڑنا سیکھو، کَٹھن و مشکل راستوں سے لڑنا سیکھو – جس طرح ہم نے کوشش کی اسی طرح آپ نے اس راستے کے ہر کانٹے کو اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا اور بہترین مستقبل کی طرف گھام (قدم) لگانا ہوگا-

کچھ وقت کے لیے تو حیو کو سامنے پاکر میں جھوم اٹھتا ہوں، اس کی باتیں مجھے مدہوش کرتی ہیں، ایسے لگتا ہے کہ وہ مجھے گلے لگانا چاہتا ہے، میں انہی خیالوں میں گُم صرف حیو کی آنکھوں میں خوشی دیکھتا رہتا ہوں، جیسے وہ سب کو چھوڑ کر پھر میرے پاس رہنے آیا ہے- جب خیالوں کی دنیا سے میں نکل کر آتا ہوں تو اس کو سامنے نہ پاکر اُس کی کہی ہوئی ہر بات کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہوں. جیسے کسی مرض میں مبتلا کوئی مریض جھٹ سے صحت یاب ہوگیا- میرے حوصلوں کو وہ تقویت دے کر چلا گیا، اُسی دن سے میرے اندر کا کمزور شخص اس دنیا سے گزر گیا، اب مجھے صرف حیو کی یادوں سے حوصلے ملتے ہیں اور میں خود کو سمیٹنے لگتا ہوں، جیسے میں مکمل ہو رہا ہوں –

حیو کے دوستوں کو آج بھی فتح یاب دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی انہی دوستوں کے ساتھ موجود ہے. حیو کی یادوں سے میں آج بھی سیکھ رہا ہوں، آج بھی میں مشکلات سے لڑنے کی ہمت رکھتا ہوں تو حیو کی شہادت کو سامنے رکھ کر، وہ آج بھی ہمارے ساتھ نہیں لیکن کسی بھی طرح سے خیالوں کی دنیا میں ایک تصوراتی زندگی میں کہیں وہ میرا تربیت کر رہا ہے، مجھے شعور بخش رہا ہے، مجھے جینے کا سلیقہ سکھا رہا ہے، اور میں مضبوط ہوکر حیو کے چُنے ہوئے منزل کے پُرخار راستوں پر اُس کے ساتھ محو سفر ہوں –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔